’’مولانا فضل الرحمن کا مارچ اور ن لیگ کا مخمصہ‘‘

’’مولانا فضل الرحمن کا مارچ اور ن لیگ کا مخمصہ‘‘
مسلم لیگ ن کو بہت دیر بعد یہ احساس ہو رہا ہے کہ انہیں مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا حصہ بننے کی بجائے اپنی الگ اور آزاد حکمت عملی اختیار کرنا چاہیے تھی۔ ن لیگ کی اکثریت موجودہ حکومت سے نجات بھی چاہتی ہے اوراسے ملکی معیشت کے لیے خطرہ بھی سمجھتی ہے،اسی طرح نواز شریف اور مریم  نواز ‫کو جیل سے نکالنے کے لیے موجود کارکنان کا دباؤ بھی موجودہ قیادت کے لیے بہت سارے سوالات پیدا کر رہا ہے لیکن شاید قیادت کی اولین صفوں میںموجود بہت سارے لوگ نہ تو مولانا فضل الرحمن کے پیچھے چلنے پر آمادہ نظر آ رہے ہیں اور نہ ہی کسی الگ سے چلائی گئی احتجاجی تحریک کی کامیابی سے پرامید ‫نظر آ رہے ہیں۔



بعض لیگی دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ جب تک ملک بھر میں نچلی سطح پر فعال تنظیم کے نتیجے میں عام آدمی کو موجودہ قیادت کے خلاف متحرک نہیں کر دیا جاتا تب تک کسی بھی احتجاجی تحریک کی کامیابی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پھر ن لیگ کی قیادت میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو ‫مولانا کی تحریک میں اپوزیشن جماعتوں، بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کی شمولیت کے بغیر مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ میں شمولیت کو مقتدر حلقوں کے لیے بے معنی اور اپوزیشن کی تقسیم کا عندیہ بلکہ نوید تصور کرتا ہے۔

ن لیگ کے اس حلقے کی سب سے بڑی تشویش اس مارچ پر اپوزیشن جماعتوں میں تقسیم اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کواسے ناکام بنانے میں نہایت ہی مددگار ثابت ہو سکتی ہے، بعض رہنماؤں کا یہاں تک بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی باہمی تقسیم مارچ میں شرکت نہ کرنے والی جماعتوں کو حکومت کے قریب کرے نہ کرے اسٹیبلشمنٹ کے قریب ضرور کر دے گی جس کی براہ راست ذمہ داری مسلم لیگ ن پر عائد کی جا سکے گی۔



ن لیگ میں موجود بعض رہنماؤں میں اس بات پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ کامیاب ہو بھی جائے اور اس کے نتیجے میں موجودہ حکومت رخصت کو رخصت بھی کر دیا جائے تو اس بات کی ضمانت فراہم نہیں کی جا سکتی کہ اس کے بعد نوے دن کے اندر اندر عام انتخابات کروا دیے جائیں اور ان انتخابات کے نتیجےمیں ن لیگ ہی کو برسراقتدار میں آنے کا موقع دیا جا سکے گا۔

اگر بقول ن لیگ کی قیادت کے، گذشتہ انتخابات میں پولیٹیکل انجینیئرنگ کی گئی اور اس کا مقصد ن لیگ ہی کو اقتدار میںآنے سے روکنا تھا تو اس بات کی کیا ضمانت فراہم کی جا سکتی ہے کہ ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں ہی ن لیگ کسی بھی صورت میں نواز اور مریم نواز کے بغیر بین الاقوامی اور مقامی مقتدر قوتوں کے نزدیک قابل قبول بن چکی؟ اگر ایسا ہے تو عوام بھی یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ وہ کون سی وجوہات تھی جن کی بنا ہر پہلے نواز شریف کو وزارت عظمی سےہاتھ دھونا پڑے اور بعد میں بقول ن لیگ کے ان کی جماعت کو بھی اقتدار میں آنے سے بزور روک دیا گیا۔

اب اس بات کی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ اس سوال کا جواب دینا ن لیگ کی قیادت پر فرض ہے یا پھر وہ اس بات کی یقین دہانی کروائے کہ عمران خان کی حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کسی بھی صورت غیرآئینی راستہ اختیار کیا جائے گا اور نہ ہی کسی ایسی تحریک کا حصہ بنے گی جس کے نتیجے میں آئین اور جمہوریت کو مزید نقصان پہنچنے کا ہلکا  سا شائبہ تک ہو۔

آئینی طریقے سے حکومت کی رخصتی کی اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں کہ وزیراعظم خود ہی صدر سے اسمبلی توڑنے کی درخواست کر دیں یا پھر وزیراعظم اور اس کی کابینہ مستعفی ہو کر پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو نیا قائد ایوان منتخب کرنے کی دعوت دے دیں۔ بصورت دیگر حزب اختلاف کی جماعتیں قواعد و ضوابط کے مطابق وزیراعظم کےخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کریں اور نیا متفقہ قائد ایوان منتخب کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

ثانی الذکر صورت موجودہ حالات میں معدوم نظر آتی ہے، اس کا عملی مظاہرہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف حزب اختلاف کی متفقہ طورپر پیش کردہ قرارداد اور اس کی ناکامی کی صورت میں دیکھ چکے۔ ظلم تو یہ کہ آج تک دونوں بڑی اور ماضی میں بار باربرسراقتدار رہنے والی جماعتیں خود اپنی اپنی صفوں میں موجود آستین کے سانپوں کو بھی سامنے نہیں لا سکیں۔

اگر مقصد عوام کی بہتری اور ملک کے روشن مستقبل کے لیے ملک میں جاتی معاشی بے یقینی کا خاتمہ اور مستقبل  میں آئین و جمہوریت کی سربلندی کو ہر قیمت پر یقینی بنانا ہے تو عمران خان کی حکومت کو محض طاقت کے بل پر یا مقامی اوربین الاقوامی سطح پر موجود مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر، یا ان کی پشت پناہی سے رخصت کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔ فی الوقت اس کا بہترین حل پارلیمنٹ کے اندر مؤثر حکمت عملی کے ساتھ اپنے بہترین جمہوری کردار کو یقینی بنانا ہے، اگرایسا ممکن نظر نہیں آتا اور اب تک پارلیمنٹ کو چلانے کے لئے حکومتی غیر سنجیدہ طرز عمل بھی یہی کچھ ثابت کر رہا ہے کہ حکومت کو اقتدار میں رہنے سے تو دلچسپی ہے لیکن وہ ایوان کی کاروائی اور اس کی خودمختاری یقینی بنانے کوضروری نہیں سمجھتی، تو اس صورت میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک واضح اور جامع روڈ میپ لے کر عوام کےسامنے پیش کرنا ہوگا۔

مصنف ماہر تعلقات عامہ، سابق ترجمان برائے وزارت منصوبہ و ترقی اور چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کے سب سے پہلے فوکل پرسن (مارچ 2015تا اکتوبر 2018) رہے۔ آج کل کمیونیکیشن اور میڈیا سے متعلق ایک نجی کمپنی میں چیف ایگزیکٹو کے طور پر کام کر رہے ہیں۔