سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے احتساب سے متعلق نواز شریف کے بیانیے پر جنرل باجوہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو سمجھنا چاہئیے کہ فوج کبھی بھی اپنے آرمی چیف پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گی، خواہ وہ موجودہ چیف ہو یا سابقہ۔ فوج کبھی برداشت نہیں کرتی کہ اس کے سابق آرمی چیف یا سربراہ پر کسی بھی قسم کی تنقید کی جائے۔ اگر ن لیگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بناتی ہے تو یہ نواز شریف کی غلطی ہو گی۔ اس سے نواز شریف اور فوج کے مابین اختلافات بڑھیں گے اور ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کھو بیٹھے گی۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی شاہد میتلا نے۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں شاہد میتلا نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کا تازہ ترین بیانیہ جو ن لیگ نے گذشتہ سال دسمبر یا رواں سال جنوری میں بنایا تھا، مارچ میں جنرل باجوہ سے ہوئی میری ملاقات میں اس بیانیے سے متعلق بھی گفتگو ہوئی تھی۔ اسی بیانیے کے مطابق ستمبر 2023 میں ہونے والے ورکرز کنونشن میں پارٹی عہدیداران کے ساتھ نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا جس میں انہوں نے 'چار ججز اور دو جرنیلوں کے احتساب' کا مطالبہ کیا۔ نواز شریف نے کہا کہ میرے خلاف عدلیہ سے فیصلے دلوائے گئے۔ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے آلہ کار تھے۔ نواز شریف نے کہا کہ 2017 کے ہنستے بستے پاکستان کو ایک سازش کے تحت بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا۔ جب تک اس سازش میں شامل تمام کرداروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا، پاکستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پاکستان اور عوام کے مجرم ہیں۔
شاہد میتلا نے کہا کہ رواں سال مارچ میں ہونے والی ملاقات کے دوران جنرل باجوہ نے مجھ سے ملکی سیاسی حالات، خاص طور پر ن لیگ کے بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو بتایا کہ میری رائے میں اگر اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو لے کر چلنے کی اجازت دے دے اور وہ اس کے تحت الیکشن مہم چلائیں تو اس صورت میں ان کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں اور یوں ن لیگ عمران خان کو شکست دے سکتی ہے۔ اس بیانیے میں وہ آپ یعنی جنرل باجوہ، جنرل فیض، ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کے خلاف بات کریں اور پاناما کیس میں ان کے خلاف جو فیصلہ آیا تھا اس کو بھی دوبارہ سے اٹھائیں تو ن لیگ جیت سکتی ہے۔ اس پر جنرل باجوہ نے جواب دیا کہ اگر ن لیگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بناتی ہے تو یہ نواز شریف کی غلطی ہو گی جو وہ ایک مرتبہ پھر دہرانے جا رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی مسلم لیگ ن نے کیس شروع کیا تھا جو ن لیگ کی غلطی تھی۔ اس کیس میں پرویز مشرف کو سزا نہیں ہو سکی تھی بلکہ وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے اور نواز شریف ہاتھ ملتے رہ گئے تھے۔
جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف فوج کے خلاف بیانیہ بنائیں گے تو اس سے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر دباؤ آئے گا۔ نواز شریف کے جو حامی فوج میں ہیں، وہ بھی ان کے خلاف ہو جائیں گے۔ فوج میں عمران خان کے جو حامی ہیں وہ بھی آرمی چیف پر دباؤ ڈالیں گے کہ ن لیگ اور نواز شریف کی حمایت کسی بھی صورت نہ کی جائے۔ جنرل باجوہ نے مزید کہا کہ اگر مجھ پر دباؤ ڈالا جائے گا اور تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا تو اس کا دباؤ موجودہ آرمی چیف پر بھی پڑے گا۔ ن لیگ کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا اور ان کے فوج میں جو چند حامی موجود ہیں وہ بھی پیچھے ہٹ جائیں گے کیونکہ عمران خان کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ پہلے ہی ایکسپوز ہو چکا ہے اور اب اگر نواز شریف یہ بیانیہ لاتے ہیں تو فوج اس بات کی کبھی بھی اجازت نہیں دے گی۔ اس کا یہ نقصان ہو گا کہ فوج اور نواز شریف میں اختلافات مزید بڑھیں گے۔ پھر فوج اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے گی اور مسلم لیگ ن کو اس طرح سے سپورٹ بھی نہیں کرے گی۔
جنرل باجوہ نے مزید کہا کہ سیویلینز کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ فوج کبھی بھی اپنے آرمی چیف پر کمپرومائز نہیں کرتی۔ نواز شریف وہی غلطی بار بار دہراتے ہیں۔ ان کو یہ بات سمجھنی چاہئیے کہ فوج کبھی بھی اپنے آرمی چیف پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گی، خواہ وہ موجودہ آرمی چیف ہو یا سابقہ۔ فوج کبھی برداشت نہیں کرتی کہ اس کے سابقہ آرمی چیف یا سربراہ پر کسی بھی قسم کی تنقید کی جائے۔ یہ بات عمران خان سمجھتے ہیں اور نا ہی نواز شریف۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو اس غلطی سے پرہیز کرنا چاہئیے۔
جنرل باجوہ نے نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہونے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو فوج نے نہیں، بلکہ سپریم کورٹ نے نکالا تھا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے فوج کا ہاتھ تھا۔ ن لیگ کے پاس بیانیہ ہے اور نا ہی چہرے۔ ان کو اپنی پارٹی کی تنظیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔