بلوچستان میں آباد سکھ برادری کے ایک معروف رکن جسبیر سنگھ بتاتے ہیں کہ سکھ بلوچستان کی چھ اقلیتی برادریوں میں سے ایک ہیں، اور یہ صوبہ ہمیشہ سے اقلیتوں کے لیے پرامن رہا ہے۔ 'بلوچستان اقلیتی برادری کے حوالے سے انتہائی پرامن صوبہ رہا ہے، جہاں ہر مذہبی برادری کو آزادی اور تحفظ حاصل ہے'، جسبیر سنگھ بتاتے ہیں۔
بلوچستان کی متنوع ثقافتوں کے درمیان ایک چھوٹی اور مضبوط برادری صدیوں سے اپنی روایات اور مذہبی عقائد کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ سکھ برادری کے لوگ گذشتہ 250 سال سے بلوچستان میں آباد ہیں۔
کوئٹہ کی مصروف سڑکوں اور گلیوں میں، جہاں مختلف برادریاں بستی ہیں، سکھوں نے ناصرف اپنی ثقافت کو برقرار رکھا ہے بلکہ مقامی معاشرتی اور اقتصادی ڈھانچے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
بلوچستان میں سکھ برادری کی آمد کا آغاز 18 ویں صدی میں ہوا، جب سکھ تاجروں اور کسانوں نے یہاں قدم رکھا۔ وہ مختلف تجارتی راستوں کے ذریعے بلوچستان پہنچے اور آہستہ آہستہ یہاں آباد ہو گئے۔ تاجروں کے طور پر انہوں نے مقامی مارکیٹوں میں اہم مقام حاصل کیا، اور زراعت کے شعبے میں بھی اپنی مہارت دکھائی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ قبائلی نظام میں ضم ہو گئے اور مقامی ثقافت اور رسم و رواج کو اپناتے ہوئے بلوچستان کی معیشت اور سماج کا اہم حصہ بن گئے۔
سکھ برادری کے لیے گوردوارہ ان کی مذہبی اور ثقافتی زندگی کا مرکز ہے۔ کوئٹہ میں مسجد روڈ پر واقع گوردوارہ سکھوں کے لیے عبادت اور کمیونٹی اجتماعات کا مقام ہے، لیکن 1947 میں تقسیمِ ہند کے بعد، یہ گوردوارہ طویل عرصے تک بند رہا۔ جسبیر سنگھ نے ایک آئینی درخواست دائر کر کے اسے دوبارہ کھولنے کی کوشش کی، اور عدالت نے سکھ برادری کو گوردوارہ واپس دے دیا۔
'بلوچستان میں گوردوارہ کا دوبارہ کھلنا ایک تاریخی قدم تھا، جسے ناصرف مقامی سکھوں نے بلکہ بیرون ملک سے آنے والے سکھ زائرین نے بھی سراہا'، جسبیر سنگھ کا کہنا تھا۔ یہ گوردوارہ اب سکھ برادری کے مذہبی اجتماعات، تہواروں اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ یہاں روزانہ کی دعائیں، کمیونٹی سروسز اور لنگر (مفت کھانے کی تقسیم) کا اہتمام ہوتا ہے جو سکھ مذہب کے انسانیت کی خدمت کے اصول کی عکاسی کرتی ہیں۔
کوئٹہ کے مشہور مسجد روڈ پر سکھ برادری کے کئی دکان داروں کا کاروبار دہائیوں سے قائم ہے۔ ان میں سے ایک جگجیت سنگھ ہیں۔ جگجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی محنت اور دیانت داری سے یہاں اپنی جگہ بنائی ہے، اور ہمیں یہاں کے لوگ عزت دیتے ہیں۔
جگجیت سنگھ کی دکان مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی دلچسپی کا مرکز ہے، جو سکھ ثقافت اور ان کی تجارت کی مہارت کو قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سکھ دکانداروں کی ایک بڑی تعداد مسجد روڈ پر کاروبار کرتی ہے، اور ان کے کاروبار میں وہی اقدار اور روایات جھلکتی ہیں جو انہوں نے صدیوں سے برقرار رکھی ہیں۔
سکھ مذہبی زندگی کا مرکز گوردوارہ ہے، جہاں عبادت کے علاوہ کمیونٹی اجتماعات بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہاں آنے والے لوگ روزانہ کی دعاؤں میں حصہ لیتے ہیں اور مذہبی تہواروں کو جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ پریت سنگھ (فرضی نام)، جو کوئٹہ کے گوردوارہ میں اکثر آتے ہیں، کہتے ہیں کہ گوردوارہ ہمارے لئے صرف عبادت کی جگہ نہیں، بلکہ یہ ہماری روحانی اور سماجی زندگی کا مرکز بھی ہے۔
گوردوارہ میں لنگر کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، جہاں مفت کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ روایت سکھوں کے بنیادی عقائد میں شامل ہے کہ سب کے لیے بغیر کسی امتیاز کے کھانے کا بندوبست کیا جائے۔ یہ ان کی انسانیت کی خدمت کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
سکھ کمیونٹی کا بلوچستان کی معیشت میں کردار
بلوچستان میں سکھ برادری ناصرف اپنی ثقافت اور مذہب کو محفوظ رکھے ہوئے ہے بلکہ صوبے کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ سکھ تاجروں اور کسانوں نے بلوچستان کی معیشت میں مختلف شعبوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کی دکانیں اور کاروبار شہر کے مختلف حصوں میں قائم ہیں، خاص طور پر کوئٹہ کے معروف بازاروں میں۔ سکھ برادری کی محنت، دیانت داری، اور کاروباری مہارت نے انہیں یہاں کے تجارتی منظرنامے میں ایک مضبوط مقام عطا کیا ہے۔
مسجد روڈ پر واقع دکانوں میں آنے والے گاہک سکھ دکانداروں کی مہمان نوازی اور خدمات سے متاثر ہوتے ہیں۔ جگجیت سنگھ جیسے دکاندار اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ناصرف اپنے کاروبار کو کامیاب بنا رہے ہیں بلکہ مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے بھی اپنی ثقافت کے نمائندے ہیں۔ 'یہاں آنے والے سیاح ہماری دکانوں میں آ کر ہمارے ساتھ ہماری ثقافت کے بارے میں بات کرتے ہیں، اور ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہم ہمیشہ اپنی روایات کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں'، جگجیت سنگھ بتاتے ہیں۔
بلوچستان میں سکھ سیاحت کا فروغ
بلوچستان میں سکھ برادری کے تاریخی اور مذہبی مقامات، جیسے گوردوارہ، سیاحوں کے لیے بھی ایک اہم مقام ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والے سکھ زائرین بلوچستان کے گوردواروں میں عبادت کے لیے آتے ہیں اور یہاں کی سکھ ثقافت اور روایات سے روشناس ہوتے ہیں۔ جسبیر سنگھ کے مطابق؛ 'گوردوارہ کے دوبارہ کھلنے کے بعد دنیا بھر سے سکھ زائرین یہاں آنا شروع ہوئے ہیں، اور یہ ناصرف ہمارے لیے خوشی کا باعث ہے بلکہ بلوچستان کے سیاحت کے شعبے پر بھی مثبت اثرات ڈالتا ہے'۔
سکھ برادری کے گوردوارے اور تاریخی مقامات کو سیاحتی مرکز کے طور پر فروغ دینے کے لیے مختلف منصوبے زیر غور ہیں، تاکہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر سکھ ثقافت کو نمایاں کیا جا سکے۔ یہ ناصرف بلوچستان میں سیاحت کو فروغ دے گا بلکہ مقامی معیشت میں بھی بہتری کا باعث بنے گا۔
اگرچہ سکھ برادری نے بلوچستان میں اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں اور مقامی معاشرے کا ایک لازمی حصہ بن چکے ہیں، لیکن انہیں کچھ چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سکھوں کی تعداد میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا ہے اور آج ان کی برادری بڑی ہو چکی ہے۔ پھر بھی وہ اپنی شناخت اور ثقافت کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
بلوچستان میں اقلیتی برادریوں کے لیے حکومتی سطح پر کچھ اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن مزید معاونت کی ضرورت ہے تاکہ سکھ برادری اور دیگر اقلیتیں اپنی ثقافتی اور مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ سکھ برادری کے افراد کا ماننا ہے کہ اگر ان کی تاریخ، ثقافت، اور مذہبی مقامات کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جائے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں، تو یہ ناصرف سکھ برادری بلکہ پورے صوبے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
بلوچستان کی سکھ برادری جو گذشتہ 250 سالوں سے یہاں آباد ہے، ناصرف اپنی ثقافتی اور مذہبی وراثت کو زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ صوبے کی معیشت، سماج اور سیاحت میں بھی ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ گوردوارہ جیسے مقامات سکھ برادری کے لیے عبادت اور کمیونٹی کا مرکز ہیں، جبکہ ان کے تجارتی اور سماجی تعاون نے مقامی معاشرت میں ان کا مقام مضبوط کیا ہے۔
اس برادری کی موجودگی بلوچستان کی متنوع ثقافت اور سماجی ہم آہنگی کی ایک زندہ مثال ہے، اور ان کی خدمات اور روایات آنے والے سالوں میں بھی جاری رہیں گی۔