زندہ دلان کا مسکن اور رواداری کا امین لاہور مذہبی انتہاپسند ہو چکا ہے

اس مجبور لڑکی کو کھڑا کر کے ویڈیو بنائی جاتی ہے جس میں مذہب اسلام کی حفاظت اور توہین رسالت کے نعرے سنے جا سکتے ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک برانڈ کے لباس جس پر عربی زبان میں کیلیگرافی ہوئی ہے اس سے ایک عالمگیر مذہب کیسے خطرے میں پڑ گیا؟

زندہ دلان کا مسکن اور رواداری کا امین لاہور مذہبی انتہاپسند ہو چکا ہے

کل لاہور شہر کے ایک گنجان اور بارونق علاقے اچھرہ میں جو واقعہ پیش آیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لاہور جو کبھی ایک شہر تھا اب مذبح خانہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس سے ملتا جلتا واقعہ آج سے چار سال قبل 14 اگست کے روز مینار پاکستان میں بھی پیش آیا تھا جب ایک ٹک ٹوکر لڑکی کو برہنہ کر دیا گیا تھا۔ کل بھی یہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اگرچہ اس مشتعل ہجوم کی خواہش تو یہی تھی مگر ایسا ہو نہ سکا۔ ہوا یوں کہ ایک لڑکی جو دیکھنے میں بظاہر پڑھی لکھی اور ماڈرن دکھائی دیتی ہے وہ اپنے شوہر یا کسی اور کے ساتھ اچھرہ بازار کے ایک ڈھابے پر آتی ہے۔ اس نے ایک ماڈرن لباس زیب تن کیا ہوا ہے جس میں عربی زبان میں کیلیگرافی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ ایک عام سی بات ہے۔

خلیجی ریاستوں میں کپڑوں کے برانڈ کی جانب سے عربی زبان میں کیلیگرافی کرنا ایک معمولی بات ہے مگر چونکہ امت مسلمہ کے واحد خدائی فوجدار اس ملکیت میں جابجا موجود ہیں لہٰذا ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ ایک ہجوم اس مجبور لڑکی کے اردگرد جمع ہو جاتا ہے اور زبانی زدوکوب شروع ہو جاتا ہے۔ اس مجبور لڑکی کو کھڑا کر کے ویڈیو بنائی جاتی ہے جس میں مذہب اسلام کی حفاظت اور توہین رسالت کے نعرے سنے جا سکتے ہیں۔ میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک برانڈ کے لباس جس پر عربی زبان میں کیلیگرافی ہوئی ہے اس سے ایک عالمگیر مذہب کیسے خطرے میں پڑ گیا؟

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جیسا کہ سطور بالا میں لکھا گیا کہ چار سال قبل بھی لاہور کے مینار پاکستان میں اس سے ملتا جلتا واقعہ پیش آ چکا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لاہور شہر کی ہئیت مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ لاہور جو زندہ دلان لوگوں کا مسکن اور مذہبی رواداری اور سیکولر روایات کا امین تھا اب وہ لاہور ختم ہو چکا ہے۔ 1947 سے پہلے کے لاہور میں اور اب کے لاہور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ 1947 سے پہلے کے لاہور میں ہندو، سکھ، عیسائی، مسلمان اور پارسی سب آپس میں امن شانتی سے رہتے تھے۔ شہر کی فضاؤں میں مذہبی رواداری تھی، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ تھا۔ ایک طرف گڑھی شاہو بازار کی طرف سے لارنس کالونی سے اینگلو انڈین کرسچن لڑکیاں سکرٹ میں ملبوس سائیکل چلاتی چرچ جاتی تھیں۔ دوسری طرف عید میلاد النبی کے جلوس سکون سے گزرتے تھے۔ کہیں مندروں کی گھنٹی بج رہی ہوتی تھی تو کہیں گوردوارے سے بابا گروناک کے نام کی صدا گونجتی تھی۔ سب سے مہذب اور پڑھے لکھے پارسی بھی اپنی عبادات میں مشغول ہوتے تھے۔

اسی لاہور کی ایک جھلک آپ کو معروف فلم ڈائریکٹر دیپا مہتہ کی فلم 'ارتھ 1947' میں نظر آتی ہے مگر اب وہ لاہور نہیں رہا۔ 1947 کے بعد اس شہر نے اپنی ہئیت بدلنی شروع کر دی۔ ہندو، سکھ بھارت چلے گئے۔ اینگلو انڈین کرسچن ہجرت کر گئے جہاں ان کو ہوا لے گئی۔ پارسی بھی اپنے لاہور کو چھوڑ گئے۔ باقی رہ گئے مقامی مسیحی تو وہ بھی کچھ بستیوں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ اب اس شہر میں 95 فیصد مسلمان ہیں اور مسلمان بھی وہ جو مذہبی جنونیت کی علمبردار مذہبی جماعت تحریک لبیک کے زیر اثر آ چکے ہیں۔ صرف لاہور ہی نہیں، پورے پاکستان کا یہ حال ہو چکا ہے۔ خیبر پختونخوا، سندھ، پنجاب، بلوچستان؛ ہر جگہ مذہبی جنونیت رائج ہو چکی ہے مگر لاہور میں چار سالوں میں یہ دو واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اگر موٹروے ریپ کیس کو شمار کریں تو 3 واقعات بن جاتے ہیں۔

ہم اور ہمارا شہر لاہور بدل چکا ہے۔ لاہور زندہ دلان لوگوں کا مسکن رہا، نہ سیکولر روایات کا امین رہا۔ نہ اب یہاں کوئی بپسی سدھوا ہے، نہ کرشن چندر، نہ راجندر سنگھ بیدی اور نا ہی گنگا جمنا تہذیب کے انتظار حسین۔ ناصر کاظمی اور فیض بھی چلے گئے۔ امانت علی خان بھی ٹی ہاؤس نہیں آتے۔ منٹو شراب کی بوتل میں ڈوب کر مر گیا جس کے دل چیر دینے والے افسانے 'کھول دو' کے کردار اچھرہ کی گلیوں میں شتر بے مہار پھر رہے ہیں۔ والٹن کیمپ میں ایک معصوم مہاجر عورت نے جس طرح کھول دو کہنے پہ حرکت کی تھی، اب وہی کچھ اس ویڈیو میں اچھرہ بازار میں کھڑی عورت کر رہی ہے۔ آواز آتی ہے کھڑی ہو جاؤ گستاخ، وہ خوفزدہ چہرے کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے اور تھانہ جا کر ایک عورت پولیس آفیسر کے ساتھ اس جرم کی معافی 'کھول دو' کے کرداروں کے سامنے مانگتی ہے جو جرم یا گناہ اس سے سرزد ہوا ہی نہیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔