صاحبو وقت بڑا کمینہ ساتھی ہے۔
آپ کے دوستوں میں ایک دوست ایسا بھی ہوتا ہے جو، سب باتیں جو آپ سب ایک دوسرے کے بارے مذاق میں کرتے ہیں، انہیں صرف سنتا ہے مسکراتا ہے مگر اس میں اپنا حصہ مسکراہٹ کے علاوہ کچھ نہیں ڈالتا۔ لیکن جب کبھی موڈ میں آتا ہے تو وہی دوست سبھی پرانی جگتیں ایسی بھگو بھگو کے اور ایسے سب کے سامنے آپ کے منہ پہ مارتا ہے کہ دھواں ہر معلوم و نامعلوم سوراخ سے نکلنے لگتا ہے۔
یہ وقت بھی ویسا ہی کمینہ دوست ہوتا ہے۔
ہمیں کوئی لکھاری ہونے کا زعم ہے نہ دعویٰ، اور ’دوستوں‘ کا دانشور (چاہے چائنہ کا سہی) کہنا ہم خالصتاً طنز شمار کرتے ہیں۔
مگر یہ زعم ہمیں بہرحال تھا کہ ہم لوگوں میں گھلنے ملنے کے نہیں ہیں، ہم اپنے گھر میں بھلے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں رہنے، نیٹ فلکس پہ چھلانگیں مارنے، کسی پرانی کتاب کو پھر سے پڑھنے کی کوشش کرنے اور ٹویٹر پہ بار بار، جب بھی ہاتھ کو موبائل سجھائی دے، راؤنڈ لگاتے رہنے کو افضل سمجھتے ہیں۔
مگر پھر یہ موا کورونا وائرس آ دھمکا۔
پہلے پہل تو یہ Quarantine کی اردو ’ قرنطینہ‘ کسی وسطی یورپ کی حسینہ معلوم پڑتی تھی۔ (ظالموں نے قید کو قرنطینہ جیسا سیکسی نام دے رکھا ہے) مگر جب سر پہ پڑی تو گھر سے باہر جانے کا دروازہ سیدھا جنت میں کھلتا دکھائی دینے لگا ہے۔
نیٹ فلکس کیا خاک دیکھتے، پچھلے ماہ کے پیسے نہ دیے تو اب نیٹ فلکس بھی کوئی Ex کی طرح ہو گیا ہے۔ کتابیں ہم پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو نیند آنے لگتی ہے۔ رہ گیا ٹویٹر تو اول تو اس سے آج کل گھر کی فضا مکدر ہو جاتی ہے اور دوئم ٹویٹر شدید قسم کا سیاسی میدانِ جنگ بنا رہتا ہے۔
پھر ایک حل نکالنے کو کچن میں کھانا بنانے کی ابتدا کی۔ پہلے دن ہی بٹر چکن کو ہاتھ ڈالا کہ آسان ریسیپی ہے، بن بھی جائے گا اور بیگم کے سامنے ہم ذرا چھاتی پھلا کے ’شیف‘ کہلوائیں گے مگر یہاں بھی ہماری قسمت ہم سے بھی کالی نکلی۔ پتہ نہیں اب چکن فلے میں نمک تھا کہ نیشنل کے مصالحے میں، پہلا لقمہ ہی گلے کو ادھیڑ گیا۔ اب بیگم کی نمی نمی طنزیہ ہنسی اور ہم چھاتی پہ مکے مار مار کے کھانسی روکنے کی ناکام کوشش کرتے رہے لیکن ہار ماننا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں کیونکہ یہ ہماری فطرت میں ہے۔ سو ہم پھر سے صوفے سے ٹائلٹ، ٹائلٹ سے صوفے، پھر صوفے سے ٹائلٹ اور ٹائلٹ سے بیڈ کے سفر میں جت گئے ہیں۔
صاحبو، وقت بڑا کمینہ ساتھی ہے۔ ہمارا یہ زعم کہ ہم گھر میں رہنے کے ہیں ایسا ٹوٹا ہے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہیں تو اس قیدِ قرنطینہ سے جیل توڑ کے باہر نکلنے کے ایسے ایسے پلان بنتے ہیں کہ سوچ رہے ہیں کوئی ایک سکرپٹ لکھ کے Sylvester Stallone کو بھیجیں کہ بھیا بنا لو Escape Plan 3۔