مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب مطیع اللہ جان کو پاکستان تحریکِ انصاف کے حامی ٹرول دن رات گالم گلوچ کرتے تھے، انہیں لفافہ صحافی قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ان کی نوکری کے پیچھے بھی پڑے رہتے۔ مطیع اللہ جان نے یوٹیوب چلانا شروع کیا تو تحریکِ انصاف کے لیڈر ان سے خوف کھاتے تھے۔ کچھ تو منہ پر بدتمیزی کرتے، کچھ کوشش کرتے کہ ان سے آنکھ بچا کر عدالت سے نکل جائیں، بعض ایسے بھی تھے جو ان کے ساتھ بڑے اخلاق سے پیش آتے تاکہ وہ ہاتھ ہولا رکھیں۔ لیکن مطیع اللہ جان نے نہ گالی دینے والے کو بخشا، نہ منہ پر میٹھا بننے کی کوشش پر پگھلے۔ وہ جو سوال آتا کر کے ہی چھوڑتے تھے، جواب نہ ملتا تو پیچھے بھی پرتے تھے اور جب تک دوسرا آدمی زچ ہو کر شکست تسلیم نہ کر لے یا کوئی جواب دینے پر مجبور نہ ہو جائے اس کی جان بخشی ناممکن تھی۔
ہم نے وہ دن بھی دیکھا جب مطیع اللہ جان اپنی اہلیہ کو لینے ان کے سرکاری سکول پہنچے تو وہاں ان کے لئے پہلے سے فیلڈنگ لگائی جا چکی تھی۔ وہاں سے ان کو دن دہاڑے اغوا کیا گیا۔ اس عمل میں Elite پولیس کے اہلکار بھی تھے، یہاں ایمبولنس بھی موجود تھی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار بھی موجود تھے۔ چارہ گروں کے نصیب کہ اعزاز سید جیسا سر پھرا بھی مطیع اللہ جان کا یار تھا۔ اعزاز نے چند ہی منٹ کے اندر اپنے تمام چینل ایکٹو کیے، خفیہ والوں کے غائب کرنے سے پہلے، کسی بھی قسم کے احکامات آنے سے پہلے اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوائی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ چند ہی منٹ میں یہ فوٹیج پاکستان کے ٹوئٹر اور یوٹیوب پر چھا چکی تھی۔
صحافی برادری نے ہاہاکار مچائی تو سیاستدان بھی اپنی نحیف آوازیں ان کے ساتھ ملانے پر مجبور ہو گئے۔ چند ہی گھنٹوں کی بات تھی کہ ڈپلومیٹک کمیونٹی بھی جاگ گئی۔ جرمنی کے سفیر کا ٹوئیٹ آیا تو یہ شاید اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تھا۔ مطیع اللہ جان کو اٹک کے قریب ایک سنسان جگہ لے جا کر چھوڑ دیا گیا۔ اسی رات وہ گھر آ گئے۔ لیکن خاموش نہیں ہوئے۔ اپنے یوٹیوب چینل پر آ کر سب کچھ بتایا۔ وہ لمحہ بھی جب وہ مار کھا کھا کر بے ہوش ہو گئے تھے۔ اور پھر وہ لمحہ بھی جب انہیں لگا کہ بس اب ان کو گولی مار دی جائے گی۔ مگر وہ باز آنے والی روح ہی نہیں ہیں۔ ایک لمبا سا مائیک پکڑا، شرٹ کے اندر ڈالا، بٹنوں کے بیچ میں سے اس کا اگلا حصہ باہر نکالا، سیلفی سٹک پر کیمپر پکڑا اور پوری کہانی کہہ سنائی۔ یوٹیوب پر تھمب نیل ایسے کہ دیکھ کر لگتا کسی تیسری جماعت کے بچے کی ڈرائنگ ہو۔ نہ کوئی ٹیگ، نہ کی ورڈ کا ہوش۔ بس ایک کام اس شخص کو آتا تھا: صحافت۔ لڑ کر، بھڑ کر، گالیاں کھا کر، مار کھا کر، اغوا ہو کر، قتل کے دہانے پر پہنچ کر بھی اگر وہ کسی چیز سے باز نہیں آیا تو وہ سوال کرنے کی دھن، صحافت کرنے کی دھن ہے۔ اگلے دن آیا اور سب کہہ سنایا۔
آج کچھ سیاسی نابالغ کہتے ہیں مطیع اللہ جان نے نئی گاڑی لے لی ہے۔ ذرا جا کر یہ وہ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھیں۔ اس میں وہ گاڑی بھی نظر آئے گی جو مطیع اللہ جان چلا کر سکول پہنچا تھا۔ پی ڈی ایم کے سیاستدان اپنی دکان چمکانے اس کے گھر پہنچے تو انہی کے کیمروں نے دکھایا کہ اس کے گھر کی دیواروں پر سے سفیدی بھی جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی تھی۔ روندے گاڑی نوں!
یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے کے کچھ ہی دیر بعد عبدالقیوم صدیقی نے ٹوئیٹ کر کے واضح کر دیا کہ یہ پرانی ویڈیو ہے اور یہ گاڑی بھی مطیع اللہ کی اپنی نہیں بلکہ نیو ٹی وی نے اس کو دی ہے۔ ویڈیو میں بھی جب صدیقی اور اعزاز سید نے مطیع اللہ جان کو مبارکباد دی تو انہوں نے جواب دیا، "تھینک یو، دیکھو کب تک رہتی ہے"۔
آپ مطیع اللہ جان سے ہزار اختلاف کریں۔ میں بھی کرتا ہوں۔ قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے پر ان کی رائے سے میں متفق نہیں۔ وہ کبھی کبھار کچھ زیادہ سخت لہجہ، زیادہ سخت مؤقف بھی اپنا لیتے ہیں۔ میں اس کا بھی قائل نہیں۔ لیکن کیا یہ لہجہ، یہ مؤقف آج سخت ہوا ہے؟ کیا بندیال، گلزار، کھوسہ، ثاقب نثار کی دفعہ یہی لب و لہجہ مطیع اللہ نے نہیں اپنایا؟ جن لوگوں کی آزادی اظہار کے حق میں وہ آج بول رہے ہیں، کیا انہی لوگوں نے مطیع اللہ جان پر رقیق حملے نہیں کیے، جنسی زیادتی کا نشانہ ہونے تک کے گھٹیا مذاق نہیں کیے؟
کیا یہی وہ مطیع اللہ جان نہیں جس نے اس وقت بشیر میمن کا انٹرویو کیا جب عمران خان جوبن پر تھا، لوگوں کو جیلوں میں پھنکواتا تھا تو عدالتیں بھی بھول جاتی تھیں۔ آج جو ایجنسیوں کے دباؤ کی شکایتیں کرتے ہیں، خط لکھ کر لیک کرواتے ہیں، وہ اس وقت 6، 7 مہینے سے پہلے ضمانت نہیں لیتے تھے۔ یہ وہی جج ہیں جن میں سے ضمانت والے دن واٹس ایپ پر آئے ایک تبادلے کے آرڈر پر جج تبدیل ہو جانے پر وہ سیٹی والی بطخ جتنی 'ٹیں' کی آواز بھی نہیں نکلتی تھی۔ بشیر میمن نے کہا یہ سب کچھ عمران خان کے کہنے پر ہو رہا ہے، FIA نے نہیں کیا تو نیب سے کروا لیا۔ یہ انٹرویو کیا مطیع اللہ جان نے نہیں کیا تھا؟ جب فیصل واؤڈا جعلی کاغذات پر 'فارم 47' والا ایم این اے بنا تھا، تو کیا مطیع اللہ جان کو گالیاں نہیں دیتا تھا؟ دیتا تھا نا؟ فرق بس یہ ہے کہ آج فیصل واؤڈا اور محسن نقوی جیسے کرداروں کو سینیٹر بنوانے والی آپ کی محب جماعتیں ہیں۔ اپنی جماعتوں کو تو آپ راہِ راست پر رکھ نہیں سکتے۔ تو بس اتنا ہی بس چلتا ہے کہ 'بادشاہ ننگا ہے' کہنے والوں کے کپڑے بھی نوچ ڈالیں۔
تو آپ اپنی سی کرتے رہیں۔ ایک بات لیکن یاد رکھیں، مطیع اللہ جان نہیں ہٹے گا۔ بلکہ ٹرول کیا تو پہلے سے زیادہ سخت لہجہ اپنائے گا۔ آپ کی عافیت بھی اسی میں ہے کہ بجائے فیک نیوز پھیلانے کے، لوگوں پر 'لفافے' کے الزامات لگانے کے، ان کے مؤقف کو سمجھیں اور کم از کم اتنی اقدار اس معاشرے میں رہنے دیں کہ کوئی شخص جس کا ماضی بے داغ ہے، حال بے داغ ہے، اس کو تو اپنے جیسا، اپنی قیادت جیسا ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں۔ کوئی تو معاشرے میں رکھ رکھاؤ رہنے دیں، کچھ تو اختلاف کی گنجائش چھوڑ دیں۔ یہ نظام چلا گیا تو مطیع اللہ کا یوٹیوب بھی جائے گا، آپ کی روزی روٹی چلانے والا ٹوئٹر بھی۔ صرف پچھتاوے رہ جائیں گے۔