بلاول کی جانب سے مطیع اللہ جان کے ’اغوا‘، خواجہ آصف کی طرف سے ’تحویل میں لیے جانے‘ کی مذمت

بلاول کی جانب سے مطیع اللہ جان کے ’اغوا‘، خواجہ آصف کی طرف سے ’تحویل میں لیے جانے‘ کی مذمت
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مطیع اللہ جان کے اسلام آباد میں اغوا پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ’selected‘ حکومت ان کی فوری بازیابی کو یقینی بنائے۔

دوسری جانب پارلیمنٹ کے باہر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ مطیع اللہ جان کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ہماری جماعت ان کے تحویل میں لیے جانے کو آزادی اظہار کے اصولوں کے خلاف سمجھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت آزادی اظہار کی حمایت کرتی ہے۔

https://twitter.com/BBhuttoZardari/status/1285560327833358339



یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد ہائی کورٹ کا کل مطیع اللہ جان کو پیش کرنے کا حکم







‏اسلام آباد ہائیکورٹ نے حافی مطیع اللہ جان کو کل عدالت پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ مطیع اللہ جان کو پیش نہ کرنے کی صورت میں سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہوں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ کا حکم۔

اس سے قبل مطیع اللہ جان کے بھائی شاہد اکبر عباسی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی بازیابی کے لئے پٹیشن دائر کی تھی۔



یہ بھر پڑھیے: مطیع اللہ جان کے ’اغوا‘ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر







صحافی مطیع اللہ جان کے ’اغوا‘ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کے بھائی شاہد اکبر عباسی کی جانب سے رٹ پٹیشن دائر کر دی گئی ہے۔

پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ مطیع اللہ جان کو نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا ہے اور ان کو فوری طور پر بازیاب کروایا جائے۔

پیٹیشن میں مطیع اللہ جان کے بھائی شاہد اکبر عباسی کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد بار کونسل میں enrolled ایک وکیل ہیں اور بارہ کہو کے رہائشی ہیں۔ انہیں ابھی ان کی بھائی کی اہلیہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ آج میرے بڑے بھائی مطیع اللہ جان جب ان کو لینے کے لئے گورنمنٹ سکول G-6/3 پہنچے مگر جب ان کی اہلیہ سکول کے باہر آئیں تو انہیں غائب پایا۔

ان کی گاڑی کا تالا کھلاہوا تھا، کھڑکیاں بھی کھلی تھیں، چابیاں گاڑی کے اندر تھیں اور ان کا فون گاڑی کی سیٹ کے نیچے پڑا ہوا تھا۔ مغوی ایک سینیئر صحافی ہے اور گذشتہ کئی ماہ سے بیروزگار تھا۔ وہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے تھے۔

مجھے شک ہے کہ انہیں نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے ہیں، اور میں اس عدالت سے استدعا کرتا ہوں کہ انہیں بازیاب کروایا جائے۔

اس مقدمے میں شاہد اکبر عباسی نے ریاستِ پاکستان، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی، ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد پولیس اور آبپارہ پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او کو فریق بنایا ہے۔