اسلام آباد: پاکستان میں نوجوان لڑکیاں بہت باہمت اور صلاحیت والی ہیں مگر یہاں سماجی روئیے ایسے ہیں کہ جب لڑکی گھر سے باہر کام کے لئے نکلتی ہے تو ان کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں اور مجھے گھر میں بھی شروع سے یہی بتایا گیا تھا کہ یہ معاشرہ مردوں کی مرہون منت قائم ہے اور آپ مردوں سے آگے نہیں نکل سکتیں مگر اس کے باوجود میں نے ہمت کرکے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں اپنا کیفے کھول لیا جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ آکر چائے اور کھانا کھاتے ہیں۔ یہ کہانی لاہور سے تعلق رکھنے والی شیزہ مشتاق کی ہے جنھوں نے فیشن ڈیزائینگ کی تعلیم حاصل کرکے مختلف کاروباری کمپنیوں کے ساتھ کام کیا مگر کبھی اطمینان نہیں رہا کیونکہ وہ اپنے بل بوتے پر کچھ کرنا چاہتی تھیں اور وہ کچھ ایسا کرنا چاہتی تھی جن سے اُن کی صلاحیتیں سامنے آئیں اور وہ کسی کے نیچے کام نہ کریں۔
شیزہ مشتاق کا تعلق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب لاہور سے ہے اور وہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد آئیں جہاں انھوں نے کچھ کاروباری کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کے بعد اسلام آباد کے ایف ٹین مرکز میں اپنا کیفے چائے میٹ شروع کیا جہاں وہ مٹکہ چائے سمیت دیگر کھانے کی اشیاء بھی فراہم کرتی ہیں۔
شیزہ مشتاق نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ بچپن سے اُن کی خواہش تھی کہ وہ اپنا کاروبار کریں یا کوئی ایسا کام کریں جس میں اُن کی محنت شامل ہو اورلوگ ان کے کام کی تعریف کریں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ شروع شروع میں میں نے کچھ کمپنیوں کے ساتھ کام کیا مگر کبھی دل نہیں لگا کیونکہ میں اپنا کام کرنا چاہتی تھی جس میں میں مکمل خودمختار ہوں ۔ وہ کہتی ہیں مجھے فوٹوگرافی کے ساتھ بھی بڑا لگاؤہے اور کچھ عرصے تک میں نے فوٹوگرافی بھی کی مگر میرے دل میں ہمیشہ کاروبار کی خواہش تھی اور آخر کار میں اس کوشش میں کامیاب ہوگئی۔ وہ کہتی ہیں کہ کئی عرصے سے میں منصوبہ بندی کررہی تھی کہ میں اسلام آباد میں اپنا کیفے کھول لوں مگر مختلف مسائل سامنے آجاتے تھے اور ایک دن میں نے اُٹھ کر فیصلہ کیا کہ اب میں نے کام شروع کرنا ہے اور کچھ وقت کی منصوبہ بندی کے بعد میں نے آخرکار اسلام آباد میں اپنا نیا کیفے کھول دیا۔
شیزہ مشتاق سمجھتی ہے کہ ملک کے کسی بھی لڑکی کے لئے خودمختاری کے ساتھ کام کرنا آسان ہے اور وفاقی دارلحکومت میں بھی کام کرنا اتنا آسان نہیں البتہ کراچی میں حالات سازگار ہے اور وہاں پہ خواتین کو کام کرنے کی آزادی ہے۔
شیزہ مشتاق کہتی ہے کہ جب میں نے منصوبہ بندی شروع کی تو بہت تنقید کا سامنا تھا کہ تم کیسے کروگی یہ تو مردو ں کا معاشرہ ہے یہاں تمھیں کام نہیں کرنے دیا جائے ، تم کیفے کھولوں گی تو تمھیں چینی لانی ہوگی، تمھیں چائے لانی ہوگی ، تمھیں چکن لانے ہوگی ، تم یہ کام نہیں کرپاوگی مطلب ہر جگہ سے تنقید کا سامنا تھا جس سے میری ہمت کم پڑے اور ارادہ کمزور ہوجائے ۔ وہ مانتی ہیں کہ میں کئی جگہوں پر کمزور پڑگئی مگر میں دوبارہ سے ہمت کرکے اُٹھ جاتی تھی اور آخر میں اس کوشش میں کامیاب ہوگئی۔ وہ کہتی ہیں ہمارے سماج میں لڑکیوں کو ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ اگر وہ گھر سے نکلتی ہے تو وہ خراب ہے۔ وہ کہتی ہے کہ کیفے کھولنے کے بعد بھی ان پر تنقید جاری رہی اور جب لوگ کیفے پر آتے تھے اور اُن کو پتہ چلتا تھا کہ اس کیفے کی مالک ایک لڑکی ہے تو عجیب عجیب نظروں سے دیکھتے تھے مگر آہستہ آہستہ لوگوں نے مجھے قبول کیا اور مجھے یقین ہے کہ مزید لڑکیاں بھی کاروبار میں آئیں گی کیونکہ خودمختاری سے کاروبار کرنے میں اپنا مزہ ہے۔
شیزہ مشتاق کہتی ہے ان کے کیفے میں ملازمین اور مالک والا رشتہ نہیں کیونکہ یہاں پر ہم دوستوں کی طرح کام کرتے ہیں اور سب مل بیٹھ کر اپنے کیفے کو دیکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ہم اچھی سے اچھی چیز اپنے کسٹمرز کو فراہم کریں اور کم قیمت میں فراہم کریں ۔
شیزہ مشاق کہتی ہے کہ میں نے کوئی سات لاکھ کے لگ بھگ پیسے بچائے تھے اور میں نے ایک دوست کے ساتھ ملکر کیفے شروع کیا اور جس بندے سے ہم نے کرائے پر دکان لی وہ بہت اچھے انسان تھے ۔ انہوں نے ہم سے پگڑی کی بھاری رقم نہیں لی اور صرف کرائے دینے پر راضی ہوئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں کہ سب مرد خراب ہیں ۔ کئی ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو میری ہمت باندھتے ہیں اور کہتے ہیں تم کامیاب بنو گی تم اپنا نام کماؤ گی۔