فرض کیجیے آپ کے والد محترم کو (خاکم بدہن) دل کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ جیسے تیسے آپ انہیں بروقت ہسپتال پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ایک قابل ماہر امراض دل بھی آپ کو میسر آ جاتا ہے۔ اس لمحے آپ کے ذہن میں صرف یہی خواہش ہو گی کہ ڈاکٹر کچھ بھی کرے مریض کی جان بچ جائے۔ لیکن آپ ڈاکٹر سے کہتے ہیں؛ 'خبردار جو میرے باپ کو ہاتھ بھی لگایا! پہلے سورۃ یٰسین پڑھ اور وہ بھی ترجمے کے ساتھ!'
ہو سکتا ہے ڈاکٹر کو مولویوں اور مولاناؤں سے بھی زیادہ اچھی سمجھ کے ساتھ یاد ہو مگر مریض کو فوراً طبی امداد پہنچانا ضروری ہے ورنہ وہ مر جائے گا۔ ہو سکتا ہے ڈاکٹر مسلمان ہو پر اسے نہ آتی ہو۔ ہو سکتا ہے مسلمان ہی نہ ہو۔ ہو سکتا ہے دہریہ ہو۔ تو آپ کیا کریں گے؟ مرنے دیں گے اپنے باپ کو؟ ہو سکتا ہے سٹریچر کے بازو میں ہسپتال کا چوکیدار ہو جس کی گز بھر کی ڈاڑھی ہو اور شلوار ٹخنوں سے اوپر۔ اسے آتی ہو سورۃ یٰسین۔ کیا آپ اسے اپنے والد کا آپریشن کرنے کو کہیں گے؟ اگر آپ مکمل طور پر بھی ذہنی مفلوج ہیں، تب بھی ایسا نہیں کریں گے اور آپ کا مطلب طب سے متعلق ڈاکٹر کے علم سے ہو گا۔
1996 میں کچھ ایسا میرے ساتھ ہوا۔ میرا سال بھر کا بیٹا زندگی اور موت کے بیچ اسلام آباد پمز میں۔ ایک فرشتہ صفت انسان ڈاکٹر جے کرشن دلجمعی سے اس کا علاج کر کے اسے مکمل صحت یاب کر دیتے ہیں۔ آج وہی بچہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ بہت دور کی کوڑی ڈھونڈ کے لائے۔ فرماتے ہیں کہ سکولوں کالجوں میں قرآن ناظرہ اور بمع ترجمہ لازمی پڑھنا ہوگا ورنہ کبھی ڈاکٹر یا انجینیئر بننا ممکن نہیں۔ اب کون انہیں سمجھائے کہ جناب حکمرانوں اور اشرافیہ کے بچے ولایت، امریکہ یا یورپ کی ان درسگاہوں میں تعلیم پاتے ہیں جہاں دینی تعلیم لازمی نہیں اور وہی دنیا کے بہترین ڈاکٹرز، انجینیئرز اور سائنسدان پیدا کرتے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کو کیوں نہیں بھیجتے ان سکولوں میں جہاں دینی تعلیم لازمی ہے؟ پھر آپ لوگ اپنے ہسپتالوں میں کیوں نہیں جاتے؟ نزلہ، کھانسی، بخار تک کا علاج کرانے کیوں فٹا فٹ لندن پہنچ جاتے ہیں؟ آپ کے بچے باہر سے پڑھ لکھ کر اس علم سے پاکستان کی خدمت کیوں نہیں کرتے؟ کیوں وہ ان ہی ملکوں کے شہری بننا پسند کرتے ہیں؟
کوئی شک نہیں کہ کائنات کی بہترین حکمت الہامی کتابوں میں ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ وہی پڑھی جاتی ہیں۔ دنیا میں پچاس سے زیادہ اسلامی ممالک ہیں مگر کوئی بھی سوائے ہمارے دینی تعلیم بطور لازمی مضمون بچوں پر نہیں ٹھونستا۔ اور دین تو یہاں صرف اسلامیات کی ہی نہیں بلکہ سائنس کی کتابوں میں بھی بکثرت پایا جاتا ہے۔ ہماری زندگی کے ہر معاملے میں دین پوری طرح داخل ہے۔ سب دکاندار حاجی ہیں۔ دکان کھولتے ہی تلاوت قرآن پاک کی کیسٹ لگا لیتے ہیں مگر بیچتے ہیں ملاوٹی اشیا۔ کرتے ہیں ذخیرہ اندوزی۔ ملازموں کے ساتھ حقیر سلوک کرتے ہیں۔ وقت پر تنخواہ نہیں دیتے۔ تمام ٹھیکیدار لمبی لمبی ڈاڑھیوں والے ہیں۔ متھے پر محرابی گٹے ایک میل دور سے ہی نظر آ جاتے ہیں۔ ہاتھ میں مسواک ہوتی ہے۔ کُرتا خس کے عطر سے مہک رہا ہوتا ہے۔ جو پل یا سڑک بناتے ہیں اس میں اگلے ہفتے ہی دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ وہ گر جاتا ہے۔ سڑک ایک بارش سے اُدھڑ جاتی ہے۔ حرام کی کمائی کو یہ حلال حج اور عمرے سے کرتے ہیں۔ قصہ مختصر اللہ میاں کو جو شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور دلوں کے حال جانتا ہے دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اپنی دانست میں۔ دراصل بے وقوف انہیں شیطان بنا رہا ہوتا ہے اور یہ بخوشی بن رہے ہوتے ہیں۔
نصاب میں دینی تعلیم آج سے نہیں، ہمیشہ سے رہی ہے۔ نصاب میں عربی اور فارسی کی تعلیم 70 کی دہائی میں فوجی آمر ضیاء الحق نے بطور لازمی مضامین شامل کی۔ وہ دن اور آج کا، ایک ایسا سائنسدان پیدا نہ کیا جو ریبیز یا کورونا کی ویکسی نیشن دریافت کر لیتا۔ آج تک سینے پرونے والی سوئی تک ہم بنا نہ سکے۔ تھے ہم زرعی ملک اور اب عالم یہ ہے کہ گندم، ٹماٹر، کیلے، پیاز، آلو اور کھیرا تک بھارت یا چین سے درآمد کر رہے ہیں۔ بہترین آموں کے درخت کاٹ کر ہم لوگ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا رہے ہیں۔ زرخیز زمین اب سمینٹ کے قبرستان میں بدل چکی ہے۔ دنیا کی بہترین 500 یونیورسٹیوں میں ہماری کسی بھی درسگاہ کا نام شامل نہیں۔ البتہ کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں ہمارا نام پہلے 10 میں ضرور آتا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی 2017 کی ہیومن کیپیٹل رپورٹ میں 130 ممالک میں ہمارا نمبر 125واں ہے۔ اسی ادارے کی عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اسی سال کی رپورٹ میں 146 ممالک میں ہمارا نمبر 145واں ہے۔ فخر کی بات ہے کہ ہم ابھی تک افغانستان سے بہتر ہیں جس کا نمبر 146واں ہے۔
یہ حکمران جو اٹھتے بیٹھتے ہمیں مذہب کا بھاشن دیتے ہیں، ان کے لیے عرض ہے کہ تھوڑا بہت دین خود بھی سمجھ لیں۔ رحمان ملک اسمبلی میں سب سے آسان سورۃ احد تک نہ پڑھ سکا۔ بے نظیر کہتی تھی کہ اذان بج رہا ہے۔ آئی ایس آئی کا سابق سربراہ جنرل جاوید اشرف قاضی جسے مشرف نے وزیر تعلیم لگایا، کہتا تھا کہ اسلامیات کے ذریعے ہم بچوں کو پورے چالیس کے چالیس سپارے پڑھائیں گے۔ عمران خان نے شوکت خانم کینسر ہسپتال بنایا اپنی جیب سے اور عوام کے ٹیکس کی کمائی سے روحانیت کی یونیورسٹی بنا ڈالی، یہ دعوٰی کر کے کہ سائنس اور روحانیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ایک ہمارے ایٹمی سائنس دان ہیں ڈاکٹر محمود سلطان بشیر الدین۔ وہ تو پرویز الہیٰ سے بھی دو نہیں چار ہاتھ آگے کی کوڑی لائے کہ جنّوں کو قابو کر کے بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ اس طرح توانائی کا بحران ختم اور ہم بجلی برآمد کر سکتے ہیں۔ ایک سزا یافتہ مجرم اپنے آپ کو بطور انجینیئر وقار آغا متعارف کرواتا ہے۔ پانی سے چلنے والی گاڑی پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر پیش کرتا ہے۔ سید طلعت حسین جیسے تعلیم یافتہ اینکر واہ واہ کرتے ہیں۔ سلطان بشیر اور ڈاکڑ عبدالقدیر فرماتے ہیں آغا وقار کی ایجاد درست ہے۔ کچھ دنوں بعد آغا اپنی گاڑی سمیت غائب!
اگر دینی تعلیم کے بغیر ڈاکٹر انجینیئر پیدا نہیں کیے جا سکتے تو مدارس لونڈے بازی کے مراکز کیوں بن رہے ہیں؟ جب بھی بچوں سے زیادتی کا کوئی کیس سامنے آتا ہے تو مجرم مولوی ہی کیوں ہوتا ہے؟
92 کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم مولانا طارق جمیل سے واقف نہیں تھی۔ آج کھلاڑی ساری دنیا کے کیمروں کے سامنے پچ پر باجماعت نماز ادا کرتے ہیں اور میچ بری طرح سے ہار جاتے ہیں۔ ان کی نماز بجائے ان کے، کافروں مثلاً ویسٹ انڈیز، انڈیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، سری لنکا یا ساؤتھ افریقہ کو فتح سے کیوں ہمکنار کر دیتی ہے؟ دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں۔ یا ان کی نماز میں کھوٹ ہے یا پھر کرکٹ کا میچ جیتنے کے لیے نماز نہیں، کرکٹ آنی ضروری ہے۔
ہمارے سپریم مولوی مفتی نعیم کورونا کے عروج کے دنوں میں سماجی رابطے کی تھیوری پھیلا رہے تھے جو نفی تھی سماجی فاصلے کی۔ ہوا کیا؟ خود کورونا کا شکار ہوئے اور مر گئے! قومی اسمبلی کے رکن سید محمود شاہ فرماتے ہیں کہ بند کرو یہ فحش مہم جو خودکار آڈیو پیغام سے بذریعہ فون کال چھاتی کے سرطان کے بارے میں آگاہی پھیلا رہی ہے۔ لفظ 'چھاتی' بچوں کے اذہان گندے کر رہا ہے۔ کون سمجھائے کہ مردوں کے پاس بھی ایک عدد چھاتی ہوتی ہے جسے کینسر لاحق ہو سکتا ہے۔ اب ایسے نمونے اگر قوم پر مسلط ہوں گے تو کیا خاک ترقی کریں گے ہم!
پھر کون سی اسلامی تعلیم آپ بذریعہ نصاب نافذ کریں گے؟ اسلام کے جتنے بھی فرقے ہیں، سب کے سب ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے چکے ہیں۔ صرف کافر لوگ ہی ہمیں مسلمان تسلیم کرتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں اسلامی تعلیم بذریعہ لازمی نصاب مزید فرقہ واریت کو فروغ دے گی!
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔