پی ٹی آئی سیاست کی پانی سے چلنے والی گاڑی، عمران خان سیاست کے آغا وقار

پی ٹی آئی سیاست کی پانی سے چلنے والی گاڑی، عمران خان سیاست کے آغا وقار
سال 2012 میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب خود فریبی کے سونامی نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ آغا وقار پٹھان کے نام سے ایک خود ساختہ انجینیئر نے ایک ایسی ’واٹر کٹ‘ بنانے کا دعویٰ کیا جس کی بدولت گاڑیاں پانی سے چل سکتی تھیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بڑے پیمانے پر اس کی پیداوار کے بعد پاکستان کے مسائل معجزانہ طور پر ختم ہو جائیں گے۔ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ شاندار ایجاد جب دوسرے ملکوں کو بھی فروخت کی جائے گی تو اس کے بعد قومی خزانہ ڈالروں سے بھر جائے گا۔ احمقوں کی جنت کے اس نظارے کو اس حد تک مقبولیت ملی کہ نیویارک ٹائمز اور دنیا بھر کے دیگر اخباروں نے بھی اس پر تبصرے لکھے۔

سیاسی رہنما، میڈیا اینکرز اور زیادہ تر پاکستانی سائنس دان بشمول ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے قومی ہیرو بھی پانی سے چلنے والی اس کار کے حق میں میدان میں آ گئے۔ صدر آصف علی زرداری نے اس ایجاد پر خوشی کا اظہار کیا اور وفاقی کابینہ کے تین اجلاسوں میں پانی پر چلنے والی کار کے بعد کی پاکستانی معیشت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بعض لوگوں نے شدت سے یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان کے نئے قومی اثاثے یعنی آغا وقار پٹھان کو امریکہ کی خفیہ قوتوں کے ہاتھوں اغوا ہونے سے بچانے کا اہتمام کیا جائے۔ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں موجود معجزوں کے منتظر رہنے اور امریکہ سے نفرت کرنے والوں کو یہ سب کچھ بالکل درست نظر آ رہا تھا۔

2022 میں ایک اور قسم کی پانی سے چلنے والی کار بھی لاکھوں لوگوں کو درست لگ رہی ہے۔ یہ نئی کار سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پر جوش ہجوم کے سامنے ماہرانہ انداز میں لانچ کی گئی اور 2012 کی کار سے بھی بڑا یہ معجزہ تب سے ایک کے بعد ایک ریلی میں ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ بری طرح ہانپتے ملک کو ایک مرتبہ پھر زندہ کر دیں گے۔ سامراجی امریکہ نے ایک سازش کے تحت بدعنوان مقامی سیاست دانوں اور جرنیلوں کے ساتھ مل کر انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا اور ملک میں ایک "امپورٹڈ" حکومت قائم کی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ سب کچھ پھر سے ٹھیک ہو سکتا ہے اگر مجھے واپس لے آیا جائے۔

ایک طرف جہاں آغا وقار نے یہ راز افشا کرنے سے اجتناب کیا کہ ان کی واٹر کٹ کس طرح کام کرتی ہے، دوسری طرف عمران خان اپنے منصوبے کھلے بندوں سب کو بتاتے پھر رہے ہیں۔ ان کی وہ تقریریں جو میں نے سنی ہیں، اقتدار میں ان کی واپسی کے ایجنڈے کے بارے میں بتاتی ہیں:




جس طرح پانی سے چلنے والی گاڑی تھرموڈائنامکس کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی تھی، اسی طرح عمران خان کا پاکستان کے لئے ایجنڈا کامن سینس کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔





معیشت: پی ڈی ایم سے تعلق رکھنے والے کرپٹ سیاست دانوں نے ملک سے اربوں کھربوں روپے لوٹے، ان سے یہ پیسے نکلوا کر خزانہ بھریں گے؛ پاکستان آئی ایم ایف کی شرطوں پر مبنی قرض قبول کرنے سے انکار کر کے آئی ایم ایف کو سبق سکھا دے گا؛ بیرون ملک مقیم تحریک انصاف کے ووٹر ڈالروں سے بھری تجوریاں بھیج کر روپے کی گرتی ہوئی قدر کو سنبھالا دیں گے؛ روسی صدر پیوٹن عین اس وقت جب یوکرین کے خلاف جنگ شروع ہوئی، عمران خان کی جانب سے ماسکو کا دورہ کرنے پر ان کا نہایت شکر گزار ہے اور وہ پاکستان کو انتہائی سستے داموں میں تیل اور گیس فراہم کرے گا؛ اور لاکھوں کی تعداد میں مغربی باشندے اپنی دولت خرچ کرنے پاکستان کے سیاحتی مقامات پر ٹوٹ پڑیں گے۔

عالمی سیاست: اسلام کو توہین سے بچانا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہوگا؛ جب بھی پیرس کا کوئی پاگل شخص توہین اسلام کی کسی کارروائی کا مرتکب ہوگا تو فرانس اور پاکستان میں تعینات فرانسیسی سفیر کانپ اٹھیں گے؛ اس کے باوجود کہ تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے، افغانستان میں طالبان کی حکومت کی حمایت کی جائے گی؛ اور نریندر مودی کو اتنی سخت زبان میں جواب دیا جائے گا کہ بھارت کشمیر چھوڑ دے گا۔ آخر کار بھارت میں رہنے والے لوگوں کو احساس ہو جائے گا کہ عمران خان نے کشمیر ہائی وے کا نام سری نگر ہائی وے کیوں رکھا تھا۔

حکمرانی: جس طرح شمالی کوریا میں ہے، اسی طرح ملک میں صرف ایک ہی عظیم رہنما ہو سکتا ہے اور صرف اسی کے ساتھ وفاداری نبھانا سب سے بڑی نیکی ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ان سے اختلاف کرتے ہیں، وہ 'شرک' کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ نظریہ ان کے قریبی حامیوں کو بھی پریشان کر کے رکھ دیتا ہے۔ دوسرے درجے کی تمام عوامی شخصیات جیسے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہیں، ان کا اثر و رسوخ کم سے کم ہونا چاہیے۔ صوبوں کو مالیاتی خودمختاری کی ضمانت دینے والی 18 ویں ترمیم کو ختم کر دینا چاہیے۔

اخلاقی اقدار کا احیا: پاکستان میں اخلاقیات کا معیار نہایت نیچے گر چکا ہے۔ یہاں لڑکیاں غیر مہذب لباس پہنتی ہیں اور لڑکے گھٹںوں تک کی جینز پہنتے اور سر پر فٹ بال والی ٹوپی الٹی پہنتے ہیں۔ عمران خان نے اکتوبر 2021 میں اس کو تبدیل کرنے کی طرف پہلا قدم اٹھایا جب اس نے ایک اتھارٹی بنائی جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ اپنے ہی بنائے ہوئے معیار کے مطابق اخلاقی اقدار کی حفاظت کے لئے برائی کو روکے اور نیکی کو فروغ دے۔

تعلیم: یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ عمران خان سائنس سے زیادہ شغف نہیں رکھتے۔ اس لئے پاکستانی بچوں پر ریاضی اور سائنس پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کے لئے دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔ یہ مضامین بہت مشکل ہیں جن کی درحقیقت خاص ضرورت بھی نہیں ہے۔ اس لئے انہیں اس طرح پڑھانا کافی ہے کہ مدرسے کے بچوں کی طرح اسے آسانی سے یاد کر لیا جائے اور جو آسانی سے ہضم بھی ہو جائیں۔ اس کے بجائے عمران خان کی سنگل نیشنل کریکولم کی کتابوں کی بھاری خوراک لڑکوں کو گھوڑے پر سوار اور ہاتھ میں تلوار لیے ارطغرل غازی بننے کا خواب دکھائے گی۔ عمران خان کے اپنے الفاظ میں القادر یونیورسٹی میں تصوف پر تحقیق "ہمارے نوجوانوں کو عظیم رہنما بنائے گی"۔

کوئی بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ عمران خان کا قبل از وقت انتخابات کا ایجنڈا ان کے یو ٹرن سے کتنا محفوظ رہے گا لیکن ہر مقبول لیڈر جانتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 میں اعلان کیا تھا: "میں ففتھ ایونیو کے بیچ میں کھڑا ہو کر کسی کو گولی بھی مار دوں تو میرا کوئی ووٹر کم نہیں ہوگا، ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟"

ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ ووٹر اس طرح کے رویے کا مظاہرہ اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ان کے تعصبات، کمزوریوں اور ذہن سازیوں کا لیڈر بڑی چالاکی سے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ لوگ عقلی بنیادوں پہ معلومات نہیں حاصل کرتے۔ اس کے بجائے وہ تیزی سے اثر کرنے والے، تسلی بخش جوابات اور پیغامات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جیسا کہ جولین ہکسلے نے مفروضہ پیش کیا تھا کہ انسانی ذہن حقیقت سے متعلق بہت ساری باتیں باہر نکال دیتا ہے کیونکہ بے پناہ تفصیل پر مبنی تصاویر کو سنبھالنا ناقابل برداشت حد تک مشکل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کامیاب رہنما پیچیدہ اور کنفیوژ کر دینے والے مسائل کو بہت حد تک آسان اور سادہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔

مسائل کو انتہائی سادہ بنا کر پیش کرنے والی حکمت عملی اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ سست ذہنوں والے افراد واٹر کٹس جیسی باتوں کی طرف کیوں آسانی سے راغب ہو جاتے ہیں۔ اگر صرف کاروں کی بات ہے تو اس میں صرف پانی ڈالیں اور لطف اندوز ہوں، آپ کو تھرمو ڈائنامکس کے اصول سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر سفید فام امریکہ کی بات ہے تو ہر برائی کا سراغ ایک ہی طرح سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے لبرل سازشیوں اور ان کے ایجنٹوں کے کھاتے میں ڈال دو۔ لہٰذا ٹرمپ کا جادوئی فارمولا یہ ہے: امیگریشن کے دروازے بند کرو، چین کا مقابلہ کرو اور واشنگٹن کے بڑے سرکاری مافیا کو ختم کر دو اور یوں امریکہ اپنی عظمت میں آسمان کی بلندیوں پر پہنچ جائے گا۔

پی ٹی آئی کا فارمولہ تھوڑے سے مختلف اجزا کے ساتھ کم و بیش ایسا ہی سادہ ہے: اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنا پاکستان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے؛ بھارت پاکستان کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے؛ امریکہ ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہا ہے؛ اور پاکستان کے ناکام ہونے کی وجہ کرپشن ہے۔ عمران خان کو اس کے تخت پر دوبارہ بٹھا دو تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا۔ یہ ارزاں اور بنا بنایا حل اپنانے کے لئے دماغ کو کم سے کم استعمال کرنا پڑتا ہے اور قومی عادات میں بھی تبدیلی کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ اس لئے یہ فارمولا ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے۔

بدقسمتی سے خان کے بیانیے سے مسحور ہونے والے چند اہم باتوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ حقیقی خوشحالی سائنس اور ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے سے آتی ہے اور مہذب رویے کا تقاضا ہے کہ ان لوگوں کا احترام کیا جائے جن سے آپ اتفاق نہیں کرتے۔ ماضی کے پیچھے پڑے رہنے سے ترقی نہیں ہوتی۔ مثبت تبدیلی کے لئے واضح سوچ اور سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔

عمران خان کی واٹر کٹ آغا وقار کی کٹ کی طرح ناکارہ ہے۔ ایک فزکس کے قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہے اور دوسری کامن سینس کی۔ تمام بلبلے آخرکار پھٹ جاتے ہیں اور پی ٹی آئی کے بھی پھٹ جائیں گے۔ لیکن یہ کب اور کیسے ہوگا، کوئی نہیں کہہ سکتا۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے تو پاکستان آنے والے دھماکے سے بچ جائے گا۔ لیکن اگر ہم خوش نصیب نہیں ہیں، تو سمجھیں آگے بہت خوفناک وقت آنے والا ہے۔




پرویز ہودبھائی کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم ایک ماہرِ طبیعیات اور لکھاری ہیں۔