مقبول بٹ کی پھانسی، اور نواز شریف پر جماعتِ اسلامی کا دباؤ: یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری کو کیوں منایا جاتا ہے؟

مقبول بٹ کی پھانسی، اور نواز شریف پر جماعتِ اسلامی کا دباؤ: یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری کو کیوں منایا جاتا ہے؟
ہرسال 5 فروری کو پاکستانی حکومت کشمیر ڈے یا یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے، یوم یکجہتی کشمیر پہلی بار سابق امیر جماعت اسلامی، قاضی حسین احمد (مرحوم) کی تجویز پر 1991 میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم نوز شریف نے منایا تھا جب نوازشریف نے پانچ فروری کو ’یکجہتی کشمیر ہڑتال‘ کا اعلان کیا تھا۔ نواز شریف قاضی حسین احمد (مرحوم) کی تجویز کو رد اس لئے بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ جماعت اسلامی کی حمایت سے گذشتہ برس یعنی 1990 میں برسر اقتدار آئے تھے۔ 1990 سے لے کر 2004 تک یوم یکجہتی کشمیر کو جماعت اسلامی ہی مناتی رہی۔ جبکہ حکومت پاکستان کی جانب سے یوم یکجہتی کشمیر منانے کا باقاعدہ آغاز 2004 میں ہوا جب وزیر امور کشمیر اور شمالی علاقہ جات، آفتاب شیر پاؤ نے حکومتی سطح پر ’ یوم یکجہتی کشمیر‘ منانے کا اعلان کیا۔



سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 5 فروری کو ہی یوم یکجہتی کشمیر کیوں منایا جاتا ہے، کیا ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں 5 فروری کو کوئی ایسا اہم واقع ہوا کہ اس دن کو پاکستانی حکومت یوم یکجہتی کے طور پر منائے؟ کشمیر یا ریاست جموں و کشمیر کی اب تک کی دستیاب تاریخ میں 5 فروری کو ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا جس کو یوم یکجہتی کشمیر سے موسوم کیا جا سکے، ہاں مگر فروری کے ہی مہینے میں 11 فروری 1984 کو ایک ایسا واقعہ ہوا جسے پاکستانی اور ہندوستانی زیر انتظام کشمیر میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور سیز فائر لائن کی دونوں طرف بسنے والے کشمیری اس دن کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ 11 فروری 1984 کو تہاڑ جیل میں ایک کشمیری رہنما محمد مقبول بٹ کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ مقبول بٹ کا شمار ریاست جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ مقبول بٹ، اشرف قریشی اور ہاشم قریشی 30 جنوری 1971 کو گنگا ہائی جیک کیس کے مرکزی کردار بھی تھے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے قوم پرست اور خودمختار ریاست جموں و کشمیر کے نظریے پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتیں اور گروہ 11 فروری کے دن یوم مقبول مناتے ہیں اور اسی مناسبت سے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبہ جات میں تہاڑ جیل میں 11 فروری 1984 کو پھانسی دیے جانے والے شہید کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی مکمل آزادی، خودمختاری اور خوداختیاری کی جدوجہد کوجاری رکھا جائے گا۔ بلا شبہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے خواہاں سیاسی کارکنان بھی مقبول بٹ کی قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں خودمختار جموں و کشمیر کی سیاست پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتیں الحاق پاکستان کی داعی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو 11 فروری کے دن اپنی مجالس میں خطاب کی دعوت دیتی ہیں اور الحاق نواز قائدین وہ دعوت بخوشی قبول کرتے ہوئے اپنے خطابات میں شہید کشمیر، مقبول بٹ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔



نوے کی دہائی اور اس کے بعد بھی ریاست جموں و کشمیر کے پاکستانی زیر انتظام حصے میں خودمختار کشمیر کے چاہنے والے ایک مناسب تعداد میں موجود رہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں الحاق ہندوستان کا نعرہ لگانا کسی غداری سے کم نہیں حالانکہ اقوام متحدہ کی سبھی قراردادوں میں باشندگان ریاست جموں و کشمیر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو پاکستان کے ساتھ رہیں یا ہندوستان کہ ساتھ۔ 1990 کی دہائی میں 11 فروری کو یوم مقبول کا منانا ایک روایت کی صورت اختیار ہوچکا تھا۔ اسی وقت جہاد کشمیر بھی ایک متوازی بیانیہ تھا اور امریکہ روس جنگ، افغانستان جہاد کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر میں جہادی عنصر کسی حد تک سرایت کر چکا تھا۔ اور پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر کے ترقی پسند یا علیحدگی پسند اس جہادی عمل کو پراکسی جنگ کا حصہ گردانتے تھے۔ اکثر تحاریر اور تقاریر میں کہا جاتا تھا کہ جہاد کے نام پر کشمیریوں کا قتل عام بند کیا جائےاور مسئلہ جموں و کشمیر کو کشمیریوں کی ایما کے مطابق ایک پرامن حل کی طرف لے کر جایا جائے۔

ایسے وقت میں جب ایک طرف جہادی ترانے اور کلاشنکوف عام ہو اور حاملین کے کسی غلط عمل کے خلاف پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی ریاست مشینری ایک درخواست لینے سے گھبرا رہی ہو، سیاسی مجالس میں جہادی عمل کو ایک انسان کش عمل کہنا جہاد کو فروغ دینے والوں کے لئے کسی طور بھی قابل قبول نہیں تھا اور جموں و کشمیر میں جاری جہاد کو سب سے زیادہ 11 فروری کے دن تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ 11 فروری کی روایت کے متبادل بیانیہ پیش کرنے کے لئے جماعت اسلامی اور حکومت پاکستان کے پاس 11 فروری سے پہلے ایک دن منانا لازم تھا تاکہ 11 فروری کے اثر کو کسی طور زائل کیا جا سکے اور شاید اسی لئے 5 فروری کے دن کا انتخاب کیا گیا۔

بھارتی حکومت کے 5 اگست کے فیصلے، جس میں بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر کو وفاق کے ماتحت کر کے بھارت کی جغرافیائی حدود کا حصہ بنا لیا گیا ہے، اور اس پر حکومت پاکستان کے معذرت خواہانہ رویے نے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی پاکستان سے کی جانے والی توقعات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے روایتی اور غیر روایتی سیاسی کارکنان پاکستان کے اس رویے سے ناخوش ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ چار ہزار مربع میل پر حکومت کے خواہاں آج بھی پاکستانی ریاست سے بے معنی توقعات کے بندھن میں بندھے ہیں۔ لیکن باشعور سیاسی کارکن شملہ معاہدے کی موجودگی اور دنیا کی نظروں میں ریاست جموں و کشمیر کو ایک دو فریقی مسئلہ سمجھنے کے معاملے پر اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ریاست پاکستان کو فی الفور شملہ معاہدے سے دستبردار ہو کر پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی نمائندہ اسمبلی کا قیام عمل میں لانا چاہیے تاکہ ریاست جموں و کشمیر کی قیادت مسئلہ کشمیر کو خود دنیا کے سامنے پیش کر سکے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ لگانا ایک توسیع پسندانہ عمل ہے۔ اگر کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ کشمیری عوام لگائیں تو وہ ایک منطقی نعرہ بنتا ہے اور یہ عوام کا جمہوری حق ہے کہ اگر انہیں حق رائے دہی دیا جاتا ہے تو وہ پاکستان کو ووٹ دے کر پاکستانی ریاست کے ساتھ الحاق کریں۔



ہر سال 5 فروری کی تقریب کے لئے پورے پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں بالخصوص اور پاکستان میں بالعموم سب سرکاری افسران اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں تعینات ملازموں کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ دفاتر میں موجود رہیں اور یکجہتی کی تقریب میں حاضری کو یقینی بنائیں۔ یوم یکجہتی کے نام پر عوامی ٹیکسوں سے جمع شدہ رقوم سے کروڑوں روپے طباعت اور پروگرام منعقد کرنے پر خرچ کیے جاتے ہیں جس سے بلواسطہ یا بلاواسطہ مسئلہ کشمیر کو رتی بھر فائدہ بھی نہیں ہو سکتا۔ جب کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے انتظامی ڈھانچے کی یہ حالت ہے کہ 2005 کے زلزلے سے متاثرہ کتنے سکول کالج اور اسپتال تاحال تعمیر نہیں کیا جا سکے، سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں اور دارالحکومت مظفرآباد کے بڑے اسپتال میں سٹی سکین کی مشین بھی موجود نہیں۔ ناکافی وسائل کی بدولت قدرتی آفات سے نمٹنے کا معقول بندوبست نہیں۔ پڑھے لکھے نوجوان نوکریوں کی تلاش میں سر گرداں ہیں۔ حکومت میں موجود حکام کی بدعنوانی کو دیکھنے اور پرکھنے کا کوئی ادارہ نہیں۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومت کے اختیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے گیا ہوا ایک چیف سیکرٹری اور مری میں بیٹھا جی او سی پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم کو تبدیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

اس وقت پاکستان کی حکومت کی سب سے زیادہ یکجہتی کی ضرورت پاکستانی عوام کو ہے، جو اس وقت غربت، بے روزگاری اور بدامنی جیسے مسائل سے دو چار ہیں اور ہردوسرے دن ریاستی اداروں کی طرف سے جبری گمشدگیوں اور آئینی حقوق کی آواز اٹھتی ہے۔ اظہار رائے کی پابندی کا شکار صحافتی اداروں کے کارکنان بے روزگاری کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ بظاہر ایک آزاد قوم، عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی اسیر ہے اور عام انسان اشیائے ضروریہ تک خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو پاکستان کے محنت کش عوام کی بے مثال یکجہتی کی ضرورت ہے تاکہ وہ مل کر اس استحصالی نظام کے خلاف لڑتے ہوئے ایک دوسرے کی قومی، سیاسی، سماجی اور معاشی آزادیوں کو یقینی بنائیں۔