سینئر صحافی مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر رضامند ہو چکی ہیں۔ وزیراعظم بنانے کا اختیار مسلم لیگ ن کو دیدیا گیا ہے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملک کے سیاسی منظر نامے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر تحریک اعتماد کے بعد پی ٹی آئی کا ہی وزیراعظم آنا تھا تو یہ اپوزیشن کیلئے بے لذت گناہ والی بات ہوتی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا لیکن اس کا فائدہ بھی کچھ نہیں ہوا۔ اسی لئے مسلم لیگ ن عمران خان کو شہید بننے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ اگر عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت اپوزیشن کو ملتی ہے اور میثاق جمہوریت کے تحت مسلم لیگ ن کا وزیراعظم آتا ہے تو لیگی قیادت کو یہ آپشن قبول ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم 16 ماہ کا عوام کو جواب دے لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ زرداری اور بلاول آج یہی کہنے گئے تھے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو میثاق جمہوریت کے تحت وزیراعظم بنانے کا اختیار ن لیگ کا ہے اور ہم اسے سپورٹ کریں گے۔ ورنہ زرداری صاحب کو ظہرانے میں جانے کی ضرورت کیا تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں چودھری پرویز الہیٰ کو موقع دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر مسلم لیگ ق کو 16 ماہ کیلئے پنجاب کی حکومت کرنے دی جائے تو وہ وفاق میں آنے والی لیگی حکومت کی بھرپور سپورٹ کرنے کو تیار ہیں۔
مزمل سہروردی نے بتایا کہ ن لیگی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ اس اہم اجلاس کے بعد شریف برادران کے درمیان تقریباً دو گھنٹے ٹیلی فونک گفتگو ہوئی ہے۔ اس میں طے ہوا ہے کہ پیر کے روز سینٹرل کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔ اس کے علاوہ شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان سے بات کرکے پی ڈی ایم کا اجلاس بلانے کی بات کی ہے۔ چیزیں اگر طے نہ ہوئی ہوں تو ایسے رابطے نہیں ہوتے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فائنل سکرپٹ طے ہو چکا ہے۔ تحریک عدم اعتماد ناکام نہیں ہوگی۔ زرداری صاحب کو کسی نے سمجھایا ہے کہ لیگی قیادت کے پاس جائیں کیونکہ ان کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔
پروگرام میں اس حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی کافی عرصے سے سوچ ایک ہے۔ دونوں یہ اقدام اٹھانا چاہتی ہیں لیکن ابھی تک اتفاق نہیں ہو رہا تھا۔ یہ جماعتیں ملیں گی تب ہی یہ ممکن ہو سکے گا۔ آج کی ملاقات میں اس حوالے سے ضرور پیشرفت ہوئی ہے کہ چاہے یہ اس میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن اس کی کوشش ضرور کرینگے۔
سہیل وڑائچ تاہم اس بات سے متفق نظر نہیں آئے اور کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے اختلافات ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی لیکن وہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے میں شاید کامیاب نہ ہو سکیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے لیکن تحریک انصاف کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد ن لیگ زیادہ دیر وقفہ نہیں چاہتی۔ ان کی قیادت سمجھتی ہے کہ عمران خان کو ہٹا کر فوری انتخابات ہو جائیں کیونکہ جتنا عرصہ لمبا ہوگا، اس کا بوجھ اپوزیشن اور نگران حکومت پر ہی پڑے گا۔ اگر مہنگائی اور بجلی کی قیمتیں کنٹرول نہ ہوئیں تو وہ بھی برابر کے مجرم ٹھہریں گے۔
رائو شاہنواز کا کہنا تھا کہ آج کی ملاقات بہت اہم تھی۔ اس میں صرف شہباز شریف، آصف زرداری، مریم نواز شریف، بلاول بھٹو اور حمزہ شہاز شریک تھے۔ ان کے علاوہ کوئی چھٹا بندہ وہاں موجود نہیں تھا۔ دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کو نہیں پتا کہ اندر کیا فیصلہ ہوا۔