Get Alerts

کاش ڈیم فنڈ کے بجائے خواتین فنڈ کا قیامعمل میں لایا جاتا

کاش ڈیم فنڈ کے بجائے خواتین فنڈ کا قیامعمل میں لایا جاتا
انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے حال ہی میں پیش کی جانے والی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس کے مطابق پاکستان صنفی بنا پر امتیازی سلوک برتنے کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بدترین ملک ہے۔ شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں دیے گئے اعدادوشمار "غلط" ہیں۔

عالمی صنفی امتیاز کے انڈیکس کی رپورٹ ورلڈ اکنامک فورم (World economic forum) نے جاری کی۔ اس فہرست میں 149 ممالک شامل تھے اور پاکستان کا نمبر 148واں تھا۔ دنیا میں صنفی امتیاز برتنے والے سر فہرست چاروں بدترین ممالک مسلمان ہیں اور پاکستان کے ساتھ اس فہرست میں سعودی عرب، یمن اور مصر بھی شامل ہیں۔ صنفی بنیادوں پر تفریق کا انڈیکس صنفی امتیاز کو چار پہلوؤں کی مدد سے جانچتا ہے: معاشی مواقع، تعلیم، صحت اور سیاسی خود مختاری۔



بہرحال یہ بھی غنیمت ہے کہ شیری مزاری نے یہ تسلیم کر لیا کہ پاکستان میں صنفی عدم مساوات موجود ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ انہوں نے سعودی عرب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس معاملے میں سعودی عرب سے بھی بدتر کیسے ہو سکتا ہے۔ شاید کسی کو انسانی حقوق کی وزیر کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ نہ تو صنفی عدم مساوات کو پرکھنے کیلئے سعودی عرب ایک پیمانہ ہے اور نہ ہی انہوں نے ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کو ٹھیک طرح سے پڑھا ہے۔ اس رپورٹ میں جانچ کے پیمانوں کو مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے اور پاکستان کی اس بدترین پوزیشن پر اچھی طرح سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

https://www.youtube.com/embed/H92K-1M-ZAw

پاکستان صنفی فرق میں صرف 55 فیصد کمی لا سکا جو کہ خطے کے علاقائی ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم شرح ہے۔ سری لنکا نے 68 فیصد، بنگلہ دیش نے 72 فیصد کی شرح حاصل کی اور جنوبی ایشیا میں پاکستان کو صنفی امتیاز برتنے والا سرفہرست ملک بنا ڈالا۔ پاکستان صحت اور زندگی کی بقا کے شعبے میں دنیا میں 146 ویں پوزیشن اور معاشی سرگرمیوں میں مواقوں کی فراہمی کے اعتبار سے 146ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان سیاسی خود مختاری میں 97 ویں نمبر پر ہے۔ اس کی حقیقت اس بات سے بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان کی وزارت انسانی حقوق کا قلمدان ایک خاتون کے پاس ہے۔ دیگر میدان جن میں پاکستان کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے ان میں تنخواہوں کی برابری اور تعلیم کا حصول شامل ہیں۔ لیکن یہاں بہتری کی اصطلاح شاید ایک خوش کن خیال قرار دی جا سکتی ہے کیونکہ جن شعبوں میں پاکستان بہتر طور پر کاوشیں کر رہا ہے ان شعبوں میں بہت سے ممالک اگلے چند سالوں میں پاکستان پر سبقت لے جائیں گے۔

پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ آبادی ہے جو سالانہ 1.93 فیصد کی رفتار سے بڑھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ اکنامک فارم کے کئی پیمانوں پر پورا اترنے کے باوجود پاکستان میں تنزلی کا عمل جاری ہے۔ کام کرنے والی جگہوں، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے علاوہ پروفیشنل خواتین بھی اس سے زیادہ متاثر ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خواتین کی نمائندگی بیحد کم ہے۔ پاکستان کا شمار ان 6 ممالک میں ہوتا ہے جہاں مردوں اور خواتین میں بڑی پوزیشنوں پر کام کرنے کا فرق 90 فیصد ہے۔ باقی ممالک میں یمن، سعودی عرب، مصر، الجیریا، لبنان اور شام شامل ہیں۔ پاکستان میں مینیجیریل پوزیشنوں پر کام کرنے والی خواتین کا تناسب 7 فیصد سے بھی کم ہے۔



پاکستان کی عالمی صنفی امتیازی سلوک برتننے والے ممالک کی فہرست میں یہ درجہ بندی سال 2017 کا ہی ایک تسلسل تھی۔ 2017 میں 144 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا شمار 143ویں نمبر پر ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان اس حوالے سے جنوبی ایشیا کے بدترین ملک ہونے کی پوزیشن پر ابھی بھی براجمان ہے۔ پاکستان نے 2015 سے 2017 کے دوران اس فہرست پر 143 ویں پوزیشن حاصل کی جبکہ 2013 اور 2014 میں اس کا نمبر بالترتیب 141واں اور 135واں تھا۔ اس رینکنگ سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی پوزیشن رفتہ رفتہ تنزلی کا شکار ہو رہی ہے۔ سال 2006 میں پاکستان 115 ممالک کہ فہرست میں 106ویں نمبر پر تھا۔ صنفی امتیاز کے پیمانے پر پاکستان کا سکور 0.546 رہا۔ اور پاکستان میں خواتین کی مردوں کے مقابلے میں تعداد 1.06 رہی۔ پاکستان میں کئی مسائل ہیں اور یہ اس حقیقت کی روشنی میں سنگین مسائل لگتے ہیں جس کے مطابق وہ ممالک جو اس فہرست میں نچلے نمبروں پر براجمان ہیں اپنے صنفی امتیاز کے مسائل کو پاکستان کی نسبت تیزی سے حل کر رہے ہیں۔

خواتین کے خلاف تشدد بہت بڑا مسئلہ ہے۔


صنفی عدم مساوات پر بات کرتے ہوئے سینیٹر کرشنا کماری کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں خواتین پر تشدد ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل، کم عمری اور بچوں کی شادیاں، عصمت دری، اغوا اور خواتین کے خلاف تشدد پورے ملک میں تمام برادریوں میں موجود ہے۔



کرشنا کماری کہتی ہیں کہ "چونکہ میں خواتین کیلئے مختص نشست پر منتخب ہوئی ہوں اس لئے تمام خواتین کہ نمائندگی کرتے ہوئے بات کرتی ہوں اور میں ان لاتعداد مسائل پر کام کرنا چاہتی ہوں جو پورے ملک میں خواتین کو درپیش ہیں۔ البتہ میرا تعلق چونکہ تھر سے ہے اس لئے میرا خصوصی دھیان اپنے علاقے پر مرکوز ہے، جہاں صحت اور تعلیم کے شعبہ جات میں بیحد کام کرنے کی ضرورت ہے اور جہاں بالخصوص خواتین بہت پسماندہ ہیں۔

تشدد اور جبر کی ایک اور نمایاں مثال کم عمر ہندو لڑکیوں کا جبری طور پر مذہب تبدیل کروانا ہے۔ بالخصوص سندھ میں ایسے واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں۔ کرشنا کماری کا کہنا ہے بچوں کی شادی روکنے کا قانون (2013) نافذالعمل ہے اور اس مسئلے کو حل کرتا ہے۔ کم عمری کی شادی ایک ایسا مسئلہ ہے جو تمام برادریوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو متاثر کرتا ہے۔ اس وجہ سے ہم نے بچوں کی شادی کے خلاف قانون بنایا ہے تاکہ 18 سال سے کم عمر کسی بچی کی شادی نہ کی جائے۔ لیکن اس قانون کے درست نفاذ کیلئے ابھی بہت سی کاوشیں درکار ہیں"۔

وسائل کو مردانہ حاکمیت سے آزاد کروانا ہو گا


ویمن ایڈوانسمنٹ ہب کی شریک بانی اور نیویگیٹنگ پاکستان فیمینسم: فائٹ بائی فائٹ نامی کتاب کی مصنفہ عائشہ سروری کے نزدیک پاکستان کی صنفی انڈکس میں ابتر پوزیشن کی وجہ طبقات کی تقسیم ہے۔

"وہ لوگ جو صنف سے متعلق پالیسیاں بناتے ہیں انہیں خراب پالیسیوں کی صورت میں اس کا خمیازہ نہیں بھگتنا پڑتا۔ انہیں عوامی ٹرانسپورٹ استعمال نہیں کرنا پڑتی جہاں خواتین باقاعدگی سے ٹٹولی جاتی ہیں۔ وہ ان کیمپسوں میں تعلیم حاصل نہیں کرتے جہاں اختیارات کا غلط استعمال ہوتا ہے، انہیں جہیز اور ازدواجی عصمت دری کے مسائل کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔ جو افراد خواتین سے متعلق پالیسیاں بناتے ہیں وہ زیادہ تر اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور سنی مسلمان مرد ہوتے ہیں"۔

عائشہ سروری کو شیریں مزاری سے بیحد توقعات وابستہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ "جس انداز سے شیریں مزاری نے اپنی بیٹی کی پرورش اور تربیت کی ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ محترمہ وزیر صاحبہ آزادی اظہار رائے، اور اظہار اختلاف پر مکمل یقین رکھتی ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ وہ تن تنہا سٹیٹس کو تبدیل نہیں کر سکتیں۔ وہ نڈر ہیں اور ایجنڈوں کو آگے بڑھا سکتی ہیں لیکن ان کی پرجوش اور نڈر سوچ غلط کو درست کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے نہ کہ ان کا دفاع کرنے کیلئے۔

ہمیں قومی مفاد کے تصور کی حفاظت کرنے والے رہنماؤں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو مفصل طریقے سے تحقیق کر سکیں کہ نقائص کیا ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ بیباک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سچی بھی ہیں۔ اوپر کی سطح پر خواتین کے حق میں آوازیں بہت کم ہیں اور اسے درست کرنے کیلئے ہیروازم سے زیادہ متانت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ عائشہ سروری نے ریاست کو بڑھتے ہوئے صنفی مساوات کے فرق کو کم کرنے کیلئے تین مرحلوں پر مبنی مشورہ دیا۔ "فوری طور پر پالیسی سازوں کے بیانیے میں تبدیلی۔

خواتین کو ایک کمزور کردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ گھر بنانے والی یا پھر مائیں۔ خواتین ایک ہی صفت کی حامل نہیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ خواتین کےخلاف تشدد کی روک تھام کیلئے مذہبی تشریحات کے استعمال کا سلسلہ بند کیا جائے۔ میرے خیال میں یہ سلسلہ ایسے افراد جو خواتین کے حق کی نفی کرتے ہیں انہیں صرف یہ بتاتا ہے کہ یہ غیر اخلاقی فعل ہے۔ اس کے بجائے ہمیں ایسے افراد کو ملکی قوانین کے تحت سزائیں دینی چاہئیں۔ قانون کو اندھا ہونا چاہیے۔ تیسرا مشورہ یہ ہے کہ ایسے پروگرامز کی تعداد کو بڑھایا جائے جو خواتین کی ڈیجیٹل تعلیم اور ان کے مالی معاملات میں شمولیت سے منسلک ہیں۔ خواتین کو استحصال اور ظلم سے بچاؤ کی خاطر وسائل درکار ہوتے ہیں۔ ڈیجیٹل انقلابی پروگرام اس مسئلے کا حل فوراً نکال سکتے ہیں۔ آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں ڈیجیٹل تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ رسمی تعلیم۔ بلکہ شاید رسمی تعلیم سے بھی زیادہ۔

کاش ڈیم فنڈ کے بجائے خواتین فنڈ کا قیامعمل میں لایا جاتا


بزرگ انسانی حقوق کی کارکن اور ہیومن رائٹس کمیشن کی سینئیر رکن سلیمہ ہاشمی کہتی ہیں کہ مضبوط سیاسی قوت ارادی کی اشد ضرورت ہے۔ "گو ہمارے ہاں ان معاملات پر باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن ہم اس ضمن میں عملی میدان میں کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ اس وقت سکول نہ جانے والی بچیوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر عالمی دنیا میں دوسرا ہے۔

سلیمہ ہاشمی کا مزید کہنا ہے کہ "پھر صحت کے مسائل ہیں۔ بچوں کو جنم دیتے وقت خواتین کی اموت، نومولود بچوں کی اموات، بچیوں کی صحت یہ تمام چیزیں اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ریاست خواتین سے کیسا برتاؤ کرتی ہے۔ اور لگتا ہے کہ پاکستان میں خواتین ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ اس چیز کو بھی مت فراموش کیجئے کہ ملک میں ابھی بھی کئی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔

سلیمہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ صنفی بنیادوں پر فرق کے بڑھنے کی ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ "کوئی ایک جماعت نہیں، ساری سیاسی جماعتیں اس ضمن میں دوشی ہیں۔ یہ وہ ریاست نہیں ہے جو صنفی برابری کیلئے کوشاں ہے اور ہم مالی بجٹ میں یہ دیکھ سکتے ہیں۔ پھر مختلف کابیناؤں کو دیکھیے۔ پنجاب کی کابینہ شرم انگیز ہے۔ اس کیلئے کوئی دوسرا لفظ نعم البدل کے طور پر موجود نہیں ہے۔ مرکزی کابینہ کو دیکھ لیجئے، آپ کو اصل مائنڈ سیٹ فوراً پتا چل جاتا ہے"۔

"یہ ہرگز بھی غیر متوقع نہیں ہے۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں، سماجی اور مذہبی اقدار ان میں سے کوئی بھی خواتین کیلئے معاون نہیں ہے۔ جب آپ 25 دسمبر کو جناح کی سالگرہ مناتے ہیں تو آپ کو شرم سے ڈوب کر مر جانا چاہیے کیونکہ جناح نے خواتین کی فلاح پر بیحد زور دینے کا درس دیا تھا"۔ سلیمہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ ترقی پسند نظریات پر مبنی قانون سازی صنفی تفریق کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ "اس ضمن میں تھوڑی سی قانون سازی ہوئی ہے۔ جنسی ہراسانی اور بچوں کی شادی کے خلاف درست اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن ان کا نفاذ صیح معنوں میں ممکن نہیں بنایا جا سکا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ پانی کا بحران پاکستان کا ایک سنگین مسئلہ بننے جا رہا ہے، لیکن میری تمنا ہے کہ کاش ڈیم فنڈ کے بجائے ہمارے پاس خواتین کا فنڈ موجود ہوتا۔"

مصنف لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف پاکستانی اور بین الاقوامی جریدوں کے لئے لکھتے ہیں۔