صحافت کے جوہر نایاب برصغیر مولانا محمد علی جوہر

صحافت کے جوہر نایاب برصغیر مولانا محمد علی جوہر

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے


اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد


15  دسمبر 2018 کو بھارت کے دارالحکومت دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ و طالبات پر دہلی پولیس کی جانب سے تشدد کیا گیا جس کے بعد پورے بھارت میں جامعہ کے طلبہ و طالبات کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے احتجاج کیا گیا۔ جامعہ متنازعہ شہریت بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا گڑھ بن گیا ہے اسی سلسلہ میں جامعہ کے حوالہ سے کچھ پڑھ رہا تھا تو پتہ چلا جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد مولانا محمد علی جوہر نے رکھی۔ وہی ولولہ وہی جدوجہد وہی حق پر ڈٹے ان طلبہ میں مولانا محمد علی جوہر کی تربیت کا رنگ نظر آتا ہے۔ 1920 میں جامعہ کی بنیاد رکھنے کے بعد مولانا محمد علی جوہر جامعہ کے پہلے وائس چانسلر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھائی۔

علی گڑھ کا جگمگاتا ستارہ صحافت کی تو سچ اور حق کی آوازمذہب پر بات کی تو اپنی مثال آپ سیاستدان شاعر اور مسلم امہ کے عظیم قائد مولانا محمد علی جوہر 10 دسمبر 1878 کو برطانوی بھارت کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے جامعہ علی گڑھ اور لنکن کالج آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ مصنف صحافی اور مترجم مولانا محمد علی جوہر نے مسلمانان برصغیر کے لئے انتھک محنت کی اور اسی جستجو میں مسلمانوں کی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی بنیاد رکھی۔ مولانا نے جامعہ کے نظریہ کے حوالہ سے وضاخت کی کہ "جامعہ کا پہلا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو حق اور خدا پرست مسلمان بنایا جائے اور دوسرا ان کو وطن دوست حریت پرور بنایا جائے "

ملک کی آزادی کی جدوجہد، تحریک خلافت، اشاعت، تعلیم، فروغ اردو، عوامی بیداری بذریعہ صحافت اور اپنی مخلصانہ کوشش و کاوش میں وہ بہت کامیاب رہے۔ مولانا نے صحافت کے میدان میں گراں قدر خدمات پیش کیں۔ کلکتہ سے اردو ہفت روزہ "ہمدرد اور انگریزی ہفت روزہ "کامریڈ" نکالا۔ مولانا ایک عظیم صحافی تھے آپ کی تحریریں نہ صرف بھارت بلکہ انگلستان میں بصد شوق سے پڑھی جاتی تھیں مولانا حق گوئی اور جدوجہد آزادی کے لئے کام کرنے کی وجہ سے با رہا جیل گئے اور سنسرشپ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

1906 میں جب مسلم لیگ کے قیام کا فیصلہ ہوا اور ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو محمد علی جوہر نے تاسیسی رکن کی حثیت سے شرکت کی اور مسلم لیگ پر کئے جانے والے اعتراضات کے جواب اور وضاحتیں تیار کیں اور ڈھاکہ اجلاس کی آل انڈیا مسلم لیگ کے لئے سرکاری رپورٹ تیار کی- 1918 میں مولانا محمد علی جوہر کو آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر بنایا گیا۔ 1919 میں تحریک خلافت کے بانی مولانا ہی تھے، تحریک خلافت وہ پہلی تحریک تھی جس نے مسلمانوں میں شعور آزادی کے لئے منظم کرنے میں مدد کی۔ مولانا تحریک کے اول دستے میں شامل تھے۔

مولانا محمد علی جوہر نے اپنی اردو اور انگریزی پر مہارت اور فن تحریر وتقریر سے مسلمانان برصغیر کے حقوق، تعلیم اور سیاسی رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا۔

مولانا 1930 میں لندن میں منعقد گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور وہاں خطاب میں کہا " میں آزاد ملک میں مرنا چاہتا ہوں اور اگر برطانوی حکومت ہندوستان کو آزادی نہیں دے سکتی تو اسے میری قبر کے لئے دو گز زمین دینی ہوگی" یہ مولانا کے آخری الفاظ ثابت ہوئے اور 4 جنوری 1931 کو مسلمانان برصغیر کے عظیم قائد اس جہاں سے رخصت ہو گئے۔ اس دور کے مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی کی خواہش پر ان کے جسد خاکی کو بیت المقدس میں دفن کیا گیا۔

جیتے جی توکچھ نہ دکھلایا مگر
مر کے جوہر آپ کے جوہر کھلے

کامران اشرف صحافت کے طالب علم ہیں۔