ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت شعبہ صحافت کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی ہے۔ جہاں میڈیا کو حکومت کی جانب سے سخت سنسرشپ اور پابندیوں کا سامنا ہے، اور صحافتی اداروں کے معاشی بحران کی وجہ سے ورکر صحافیوں کی زندگیاں عذاب بن چکی ہیں۔ وہیں صحافت کا ایک ایسا بھی میدان ہے جہاں سب سکون ہے، اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
ٹوٹا ہوا ہیلمٹ، زنگ آلود اور کیچڑ سے لت پت موٹر سائیکل اور دفتر میں یہ سوچتے ہوئے داخل ہونا کہ یار اس مہینے اگر تنخواہ مل گئی تو میری سب پریشانیاں دور۔ یہ وقت حاضر کے پروفیشنل/ورکر صحافی ہیں جن کا کام صرف اور صرف صحافت ہے۔ اگر یہ سب لوگ کام کرنا چھوڑ دیں تو یقین جانیں کسی بھی میڈیا انڈسٹری کا دیوالیہ نکل جائے، لیکن پھر بھی یہ سَر پھرے پوری ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ ان میں بہت کم ہیں جو بلیک میلنگ کا سوچتے ہیں۔
دوسری طرف ہے لوکل جرنلزم۔ اس کے تو رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ ششکے ہی اور ہیں۔ اس صحافت کا کوئی معیار نہیں، ایک کلومیٹر کے فاصلے پر 3 لوگوں کا اپنا پریس کلب ہوتا ہے اور کچھ جگہوں پہ پریس کلب زیادہ اور صحافی کم ہیں۔
صحافیوں کی اس کلاس کے نزدیک سب سے بڑا صحافی وہ ہے جس کے نام کا بڑا بورڈ شہر کے داخلی اور خارجی راستے پر آویزاں ہوتا ہے، اور اس کے نام کے ساتھ فلاں سینئر جرنلسٹ، نمائندہ اخبار/ٹی وی لکھا ہوتا ہے۔ حامد میر اور شاہزیب خانزادہ جیسے لوگ ان کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے 5 روپے کے اخبار میں بڑی طاقت ہے، جس میں خبر کم اور دعوت ولیمہ کی تصویریں زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تصویروں کے پیسے دولہا کبھی مرضی سے اور کبھی مجبوری دیتا ہے۔
باقی خبروں کا سلسلہ ان کے فیس بک اکاؤنٹ سے شروع ہوتا ہے۔ سارے یونیورسل پلئیرز ہیں اور ہر بیٹ پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ ان کی اداراتی پالیسی قدرے آزاد اور بے مہار ہوتی ہے۔
بقول ان کے یہ لوگ بلیک میلنگ بالکل نہیں کرتے، لیکن پھر بھی ان کا گھر چلتا ہے، بینک بیلنس ہے، اچھی گاڑی ہے۔ اس صحافت کے لئے کوئی ڈگری درکار نہیں، تجربے کی کوئی قید نہیں۔ بس تین لوگ چاہیے اور ایک پریس کلب۔ اور صحافت کی نئی دکان تیار۔
سچ پوچھیں! تو صحافی یہ ہیں جنہیں دیکھ کر ہمیں (بغیر تنخواہ کے کام کرنے والوں کو) بھی رشک آتا ہے۔
لکھاری نے جامعہ گجرات سے صحافت کی ڈگری حاصل کی ہے اور آزاد کشمیر میں بطور صحافی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔