اسلام آباد: پروفیشنل گداگروں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہونے کا انکشاف، شہری پریشان

اسلام آباد: پروفیشنل گداگروں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہونے کا انکشاف، شہری پریشان
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گداگروں کی تعداد میں اضافہ، رمضان المبارک میں تین ہزار سے زائد گداگروں نے شہر اقتدار کو یرغمال بنا لیا ہے۔ نیا دور میڈیا نے اسلام آباد کے گداگروں کی بڑھتی تعداد کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا ہے اور شہریوں کو درپیش مشکلات کا انداز کے لیے مختلف علاقوں میں انٹرویوز بھی کیے ہیں۔

نیا دور کی تحقیقات کے مطابق اس وقت اسلام آباد کے F-10 سیکٹر میں گداگروں کی تعداد پانچ سو سے زیادہ ہے جن میں زیادہ تعداد بچوں اور نشئی افراد کی ہے۔ بخت بی بی کا تعلق افغانستان کے لوگر قبیلے سے ہے اور وہ اسلام آباد کی ایک کچی آبادی میں گذشتہ 16 سال سے رہائش پذیر ہیں۔ بخت بی بی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ وہ اس وقت نو بچوں کی ماں ہے اور اُن کا شوہر نشے کا عادی ہے۔

بخت بی بی کا کہنا ہے کہ تین بچے ان کے چھوٹے ہیں جبکہ چھ بچوں کے ساتھ وہ روزانہ اسلام آباد کے F-10 سیکٹر آتی ہیں اور شام کو اپنے گھر واپس جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پہلے میں اکیلے بھیگ مانگتی تھی مگر اب میرے پاؤں میں درد رہتا ہے اور میں ذیابیطس کی مریض ہوں جس کی وجہ سے زیادہ چل پھر نہیں سکتی، اس لئے اپنے چھ بچوں کو ساتھ لاتی ہوں اور شام تک کھانا بھی وافر مقدار میں مل جاتا ہے جبکہ ایک سے دو ہزار تک پیسے بھی مل جاتے ہیں تاکہ گھر کا نظام چلتا رہے۔

اسلام آباد کی ایف 10 پولیس کے مطابق اس وقت اسی سیکٹر میں گداگروں کی تعداد چھ سو کے لگ بھگ ہے کیونکہ جو پروفیشنل گداگر ہیں۔ ان کی تعداد زیادہ نہیں بلکہ تقریباً ہر خاتون کے پاس پانچ سے چھ بچے روزانہ آتے ہیں جو بھیگ مانگتے ہیں، جن کی وجہ سے تعداد میں اضافہ ہوا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت ایف 10 کے تین تندوروں پر دو سو کے لگ بھگ خواتین اور بچے موجود رہتے ہیں جن کی وجہ سے شہریوں کو خریداری میں مشکلات کا سامنا ہے اور جب تک کوئی مربوط نظام نہیں بنتا ان کو ختم کرنا ناممکن ہے کیونکہ ہم نے کئی بار ان کو گرفتار کیا، جیل میں ڈالا، مگر ہم ہمیں مجبوراً چھوڑنا پڑتا ہے کیونکہ جیل میں ان کو قید کرنا مسائل کا حل نہیں۔

اسلام آباد کے G-9 سیکٹرز میں اس وقت گداگروں کی تعداد چار سو کے لگ بھگ ہے اور ان میں بھی زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔

نیا دور سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد کے رہائشی فیصل چودھری نے بتایا کہ ایک طرف کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے تو دوسری جانب جب خریداری کے لئے نکلتے ہیں تو سڑک سے لے کر دکانوں اور تندوروں تک پر گداگروں کا راج ہے اور خریداری کرنا مشکل ہوجاتی ہے کیونکہ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اگر آپ ان کو پیسے نہیں دیتے تو ان کے چہرے پر ماسک نہیں ہوتے، تو وہ آپ کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں، جو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لئے دور سے ہم اُن کو پیسے تھما دیتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس شہر میں گداگروں کے علاوہ کوئی اور انسان نہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے G-11 سیکٹر میں افطاری سے پہلے گداگروں کی تعداد تقریبا پانچ سو سے بڑھ جاتی ہے اور ان میں بھی زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔

نیا دور میڈیا کے تحقیقات کے مطابق اسلام آباد میں 60 فیصد گداگر حفاظتی ماسک کا استعمال نہیں کرتے جن سے وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ جی گیارہ مرکز میں واقع چار تندوروں پر تقریباً خواتین اور بچوں کی تعداد دو سو پچاس کے لگ بھگ ہے جن میں زیادہ تعداد کچی آبادی اور چھبیس چونگی کے رہائشیوں کی ہے۔

تندور پر کام کرنے والے کمال نے بتایا کہ رمضان کے مہینے میں گداگروں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور بہت سارے گداگروں نے نہ صرف بچوں کو گھر سے باہر نکالا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے شہروں سے رشتہ داروں کو بھی بلایا ہے کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد میں لوگ امیر ہیں اور صدقہ زیادہ دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ عام دنوں میں بھی خواتین اور بچے تندور پر موجود ہوتے ہیں مگر ان دنوں تعداد بہت بڑھ گئی ہے جن کی وجہ سے اب لوگ تندور پر بھی آنے سے کتراتے ہیں کیونکہ یہ خواتین بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہیں تاکہ لوگوں بچوں کو دیکھ کر جذباتی ہوں اور ان کو پیسے دیں۔

اسلام آباد کے سیکٹر G-10 میں گداگروں کی تعداد تین سو سے زیادہ ہے۔ جی ٹین مرکز میں کوہستان سے آئے ہوئے بانو بی بی کا خاندان بھی ہے جو روزانہ چار بچوں کے ساتھ مرکز میں آتی ہیں اور بھیگ مانگتی ہیں۔ بانو بی بی نے کہا کہ شہر میں گداگروں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے اُن کا کام بہت متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگ غصہ کرتے ہیں اور رقم نہیں دیتے۔

انھوں نے کہا کہ میں دوپہر کے بعد بچوں کے لئے دو سو روپے کی پینسلیں لے لیتیں ہوں اور شام تک ہر بچہ تقریباً دو دو سو روپے کما لیتا ہے اور زیادہ تر بچے پین واپس لے کے آتے ہیں کیونکہ لوگ پین نہیں خریدتے بلکہ ان کو پیسے دے دیتے ہیں۔

بانو کی بچوں کی تصویر لیتے ہوئے ایک پچیس سالہ نوجوان تیزی سے موٹر سائکل پر میری طرف آیا اور مجھے تصویر لینے سے منع کیا اور کہا یہ ہماری غیرت کا مسئلہ ہے۔ بانو بی بی نے کہا کہ یہ میرا بڑا بیٹا ہے اور افطاری سے پہلے ادھر پہنچ جاتا ہے اور بچوں سے جمع شدہ پیسے لے لیتا ہے کیونکہ بچے ان سے ڈرتے ہیں، مجھے پیسے نہیں دیتے ان کو دے دیتے ہیں، مگر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ واقعی یہ اس خاندان کا بندہ تھا یا پھر گداگروں کے گینگ کا حصہ تھا۔

نیا دور میڈیا نے ایک ہفتے تک اسلام آباد کے تقریباً دس سے زیادہ مراکز میں گداگروں کی جانکاری کی کوشش کی اور تحقیقات سے یہ پتہ چلا کہ ہر مرکز میں گداگروں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے مگر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے تاحال کوئی ایکشن سامنے نہیں آیا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔