بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں

بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں
اکیسویں صدی کے اوائل میں جہاں ایک جانب عصر حاضر کا انسان دوسرے سیاروں میں زندگی کے آثار ڈھونڈ رہا ہے، کائنات کی تخلیق کے پہلے ایٹم کا کھوج لگا رہا ہے اور انسانی ارتقا کی تاریخ کو ازسر نور رقم کر رہا ہے، وہاں جب سیارہ زمین پہ 2019 کا آخری سورج غروب ہو رہا تھا تو کس نے سوچا تھا کہ آنے والے سال میں ایک وائرس، اک مہلک وبا کی صورت میں تمام عالم میں پھیل جائے گا اور چند مہینے کے اندر دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے کر لاکھوں انسانی جانیں نگل لے گا اور کروڑوں انسانوں کو اپنے گھروں میں مقید اور بے بس کر دے گا۔ اقبالؔ کی نظم عصر حاضر کا انسان کے چند اشعار شاید آج کے منظر نامہ کی صحیح عکاسی کرتے ہیں:

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکار کی دُنیا میں سفر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

چین کے شہر وہان سے پھوٹنے والا یہ وائرس محض تین مہینے کے عرصہ میں تمام دنیا میں پھیل گیا اور تاوقتیکہ تحریر اس مہلک وائرس کے ہاتھوں پانچ لاکھ کے قریب انسان داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں اور تقریباً ایک کروڑ کے قریب انسان اس وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ تمام دنیا کی قریباً آٹھ ارب آبادی اس وبا کے بروقت علاج کے لیے ایک ویکسین کی دریافت کی منتظر ہے جو فی الوقت کسی کے پاس نہیں۔ کئی دوسرے ممالک کی طرح وطن عزیز کی فضاؤں میں بھی کرونا وائرس اور اس سے جڑی تمام عفریتیں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ تادمِ تحریر پاکستان میں قریباً پونے چار ہزار افراد اس وائرس کے شکنجے میں آ کر دارِ فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ پچھلے تین ماہ سے تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند بیں اور دفاتر، کاروبار، صنعتیں اور دیگر کاروباری مراکز مکمل یا جزوی طور پر بند ہیں۔ اس وقت گھروں کے اندر بند کمروں میں، اخبارات کی شہ سرخیوں میں اور ٹی وی کی سکرینوں پر صرف ایک ہی موضوع سخن ہے کہ کرونا وائرس نے مزید کتنی انسانی جانیں نگل لیں، کتنے انسان اس کے آہنی شکنجے سے بچ نکلے، کونسی سرکار نے اس سے نبٹنے کی بہتر حکمت عملی اپنائی اور اس کے ممکنہ علاج کے طریقے، دیسی ٹوٹکے، معجزاتی نسخے اور نجانے کیا کچھ۔۔۔۔

آپ اس وبا سے جڑے انسانی المیوں کے بیسیوں واقعات ہر روز سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے سنتے ہوں گے۔ سرکاری ہسپتالوں میں سسکتے اور تڑپتے مریضوں کے واقعات، وینی لیٹرز اور ادویات کے حصول کی بھاگ دوڑ میں لگے ہانپتے اقارب کے قصے اور کئی گنا مہنگے انجکشن بیچنے والے سفاک سوداگروں کے واقعات۔ آپ یہ تمام کہانیاں کتنی بار ہی کیوں نہ سن لیں آپ کو اس وائرس کی سنگینی اور سفاکی کا حقیقی احساس اس وقت ہوتا ہے جب یہ خدانخواستہ آپ کے کسی اپنے پیارے کے جسم میں خاموشی سے داخل ہو کر اسے ہمیشہ کے لیے آپ سے جدا کر دیتا ہے۔

میں اور میری فیملی رواں مہینے ایک ایسے کرب سے گزرے ہیں کہ ابھی تک اک بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ تقریباً تین ہفتے قبل ہمارے ایک بہت ہی قریبی عزیز اس سفاک وائرس میں مبتلا ہوگئے۔ بیماری کے ظاہر ہونے پر بروقت ان کو گھر میں آئسولیٹ (قرنطینہ) کر دیا گیا اور ٹیسٹ مثبت آنے سے قبل ہی ضروری ادویات بھی شروع کروا دی گئیں۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک تیسرے روز ان کی سانس اُکھڑنا شروع ہوگئی اور آکیسجن لیول کافی نیچے گر گیا، اُن کو اسی وقت لاہور میں بیدیاں روڈ کے قریب ایک نسبتاً بہتر سرکاری ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ جس وقت ان کا بیٹا اور میرا خالہ زاد بھائی ان کو ہسپتال کے عملے کے سپرد کر کے گھر لوٹ رہا تھا تو اس وقت ان کے حواس قائم تھے، بس آکسیجن لیول کم تھا۔ تین گھنٹے بعد ہسپتال سے ان کے بیٹے کو وہ منحوس فون کال آئی کہ آپ کے والد صاحب انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی میت جلد یہاں سے شفٹ کر لیں کیونکہ ہمارے ہسپتال میں سرد خانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ آپ تصور کریں کہ اس فیملی کے لیے اس امر کو تسلیم کرنا کتنا مشکل ہوگا کہ اس گھر کا سربراہ جو ابھی چند گھنٹے پہلے اس مکان کے ایک کمرے میں موجود تھا اور بظاہر اپنی پوری قوت ارادی سے اس موذی وبا کا مقابلہ کر رہا تھا، اچانک بغیر کوئی عندیہ دیے یوں خاموشی سے دائمی داغِ مفارقت دے گیا۔

ایک طرف اپنے کسی پیارے سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جانے کا غم بذاتِ خود اتنا بھاری ہوتا ہے اور دوسری جانب یہ حزن بھی کیا کم عظیم ہے کہ آپ اس مرض میں مبتلا اپنے پیاروں کے آخری لمحات میں ان کے ساتھ موجود نہیں ہوتے۔ ان کے سرہانے کھڑے ہو کر ان کا ہاتھ تھام نہیں سکتے۔ ان کو تسلی کے دو بول اور حوصلے کا وہ لمس نہ دے سکیں جس کی ان کو ان لمحات میں سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ وہ لوگ جن کے بغیر آپ چند گھڑیاں گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے آپ کو مجبوراً ان کو ہسپتال کے مخصوص وارڈ میں وہاں کے عملے کے سپرد کر کے بوجھل قدموں سے گھر لوٹ آنا پڑے اور پھر فون کی ایک گھنٹی آپ کی تمام کائنات کو بدل کے رکھ دے۔

بے بسی اور دُکھ کی یہ داستان کسی پیارے کے یوں اچانک الوداع کہے بغیر چلے جانے پہ بھی ختم نہیں ہوتی۔ جس گھر کے مکینوں میں یہ وبا داخل ہو جاتی ہے وہاں تدفین اور تعزیت کی رسومات میں ایک انجانی سراسیمگی کا پہرہ بیٹھ جاتا ہے، رشتہ داروں کی شرکت بالکل محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ لواحقین حزن و ملال اور خوف کی ملی جلی کیفیات میں مبتلا ہو کر رہ جاتے ہیں کہ وہ اس گھر میں جا کر کہیں اس وبا کے جراثیم اپنے ساتھ اپنے گھروں میں نہ لے آئیں اور اپنی خو اتین، بچوں اور بزرگوں کو اس مرض میں مبتلا کرنے کے باعث نہ بن جائیں۔

امتحانات اور غم انسانی زندگی کا ناگزیر حصہ ہوتے ہیں۔ اپنی زندگی میں ہم بے شمار تکالیف، مصائب اور بیماریوں کا سامنا کرتے ہیں لیکن ایسے مواقع پر اپنوں کا سہارا بڑی غنیمت ثابت ہوتا ہے۔ اپنے پیاروں کی ڈھارس اور ہمدردی کے دو بول بڑے سے بڑے زخموں کو بھی مندمل کر دیتے ہیں لیکن یہ ظالم وائرس آپ کی زندگی کی مشکل ترین گھڑیوں میں آپ کو اپنوں کے قرب سے دُور، بالکل تنہا کر کے کھڑا کر دیتا ہے۔ آپ تصور کریں کہ آپ اپنے کسی بہت قریبی عزیز سے اس کے سر سے باپ کے سایہ کے چھن جانے کا افسوس تو کریں لیکن اسے اپنے سینے سے نہ لگا سکیں۔ اس کے سر پر ایک دست شفقت نہ رکھ سکیں، اپنے ہاتھ سے اس کے آنسو نہ پونچھ سکیں۔ اس رات جب میں اپنے خالہ زاد بھائی کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے نہایت منکسر المزاج اور نرم خو طبیعت کے مالک باپ کو کھو دینے کے بعد شدتِ غم سے نڈھال ہو کر سر جھکائے کھڑا تھا اور اس سے چند فٹ کے فاصلے پر تعزیت کرنے والے احباب آتے، کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر کچھ مخصوص جملے ادا کر کے رخصت ہو جاتے۔ میں نے جب اس کے قریب پہنچ کر اپنے بازو اس کی طرف بڑھائے اور اس کو اپنے سینے سے لگایا تو آنسوؤں کا ایک سیلاب رواں ہوگیا۔ یہ حزن، ملال اور لاچارگی میں گندھا گرم سیال تھا۔ ان آنسوؤں میں ایک تنہا بیٹے کا گریہ تھا اور ان ہچکیوں میں ایک بے بسی کا نوحہ۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ ہم اچانک نہیں مر جاتے، ہم لمحہ لمحہ مرتے ہیں۔ جب ہمارا کوئی اپنا رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی ہمارے وجود کا ایک حصہ بھی دفن ہو جاتا ہے۔

اس رات ایک اور بات کا بھی ادراک ہوا کہ کسی اپنے گزر جانے والے کے چہرے کا آخری دیدار کیوں کیا جاتا ہے؟ جب آپ اپنے پیاروں کو آخری بار قریب سے دیکھتے ہیں اور وہ آپ کے پکارنے پر بھی کوئی جواب نہیں دیتے تو کہیں نہ کہیں آپ کے بے اماں اور بے چین دِل کو یہ یقین اور صبر آ جاتا ہے کہ یہ ہمارا اپنا اب ہماری آواز نہیں سن سکتا اور اب یہ کسی اور جہان کا حصہ بن گیا ہے۔ اگر آپ کا کوئی پیارا عزیز اس وائرس کی وجہ سے جہانِ فانی سے رخصت ہو جائے تو طے شدہ سرکاری پروٹوکول کے مطابق اس کا جسد خاکی ہسپتال سے براہ راست ایک تابوت میں بند کر کے منوں مٹی تلے اُتار دیا جاتا ہے اور دو پولیس کے افسران ہسپتال کے عملے کی زیر نگرانی مرحوم کے صرف دو رشتہ داروں کو تدفین کے موقع پر قبرستان میں موجود ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان دو لوگوں کے علاوہ جانے والے کے کئی قریب اقارب اور گھر کی وہ خواتین جنہوں نے دعائیں دے کر اور منتیں مان کر اپنے پیارے کو ہسپتال جانے کے لیے رخصت کیا ہوتا ہے وہ ایک بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہو کر صرف ایک مرتبہ اپنے پیارے کا چہرہ دیکھنے کے منتظر رہتے ہیں لیکن اس جہان سے کب کوئی لوٹ کے آتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ان کے انتظار اور شدید اداسی کے احساس کو کم ہونے میں کتنا عرصہ درکار ہوتا ہے شاید چند ماہ، چند سال یا پھر اک عمر۔۔۔ کچھ سال پہلے کہیں پڑھا تھا کہ ’’اداسی کے بھی سو چہرے ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ اداس چہرہ ایک ایسی جدائی کا ہے جس میں کبھی دوبارہ ملاقات کا امکان کم ہو۔‘‘

کرونا وائرس سے جڑے اس کربناک ذاتی تجربے کے بعد اس وبا سے جڑی تمام خبروں کا مفہوم ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ اب جب بھی اس وبا کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد ٹی وی سکرین پر دکھائی جاتی ہے تو بے اختیار دل میں یہ خیال آتا ہے کہ اپنے پیاروں سے بچھڑنے والے ان لوگوں میں ایک ہمارا اپنا بھی تو ہے اور یہ وطن عزیز میں جو پونے چار ہزار افراد اس وائرس میں مبتلا ہو کر رخصت ہو گئے دراصل ان پونے چار ہزار افراد کی موت نہیں ہوئی بلکہ یہ پونے چار ہزار خاندانوں کی موت واقع ہوئی ہے۔

کرونا وائرس نے ایک طرف تو جاں کئی زندگیوں کے چراغ گل کر دیے، کئی سفید پوش گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے کر دیے، وہاں اس نے جس ہولناک عفریت کو جنم دیا ہے وہ شدید احساسِ تنہائی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں اس وائرس کے بعد تمام دنیا میں ابھرتی صورتحال اور مسائل کے پیش نظر لوگوں میں تیزی سے پھیلتے ہوئے ذہنی امراض کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ تین ماہ میں اپنے متعدد آرٹیکل میں امریکہ میں ڈپریشن، خوف، احساسِ محرومی اور مایوسی کی ایک شدید متوقع لہر کے بارے میں متنبہ کر چکا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں پچھلے چار ماہ میں تقریباً پونے چار کروڑ سے زیادہ لوگ بیروزگارہو کر اپنے گھروں میں قید ہیں۔

غم تنہائی خود انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر بہت کمزور کر دیتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب انسان کو ہر طرف سے اندوہناک خبریں مل رہی ہوں اور آپ کے قریبی عزیز، د وست اور شناسا چہرے ایک ایک کر کے آپ سے ہمیشہ کے لیے بچھڑے چلے جا رہے ہوں اور آپ خود ایک حالت خوف میں اپنے گھر میں بند ہوں تو اداسی اور احساسِ تنہائی کا شکار ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ اداسی کا کوئی وقت، سمت یا مذہب نہیں ہوتا، وہ تو بس بغیر کسی پیشگی اطلاع اور اجازت کے آپ کے جسم میں آہستگی سے داخل ہوتی ہے اور اپ کی رَگوں میں سرایت کر جاتی ہے۔

محمود شام نے ان وبا کے دنوں کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ:

عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی

بقائے شہر ہے اب شہر کے اُجڑنے میں

جب انسان خود گھر کی چار دیواری میں قید ہو اور اس کا دل ایک وباکے ڈر سے ہمہ وقت اس کے سینے میں قید ہو اور ہر طرف المناک انسانی داستانیں اور افسوسناک معاشرتی رویئے بکھرے پڑے ہوں تو اس خوف اور واہموں کی فضا میں حرف و سخن کے سلسلے، رنگ و بو کی حکایتیں اور تخلیق کاری کا عمل سب ایک بھولا بسرا خواب لگتا ہے۔

اگرچہ دنیا کا بہت سا ادب گوشہ تنہائی اور ایّام اسیری میں رقم ہوا اور علیحدگی، تنہائی اور مغائرت جدید ادب کی روح میں شامل ہے۔ ادب کے کئی بیش قیمت جواہر پارے ایّام اسیری میں تخلیق کیے گئے جیسے آسکر وائلڈ کا اپنی محبوبہ کے نام شہرہ آفاق خط دی پروفاؤنڈلیس، والٹررہے کی ہسٹری آف دا ورلڈ، رسٹی چیلو کی مشہور زمانہ مارکو پولو کے سفر نامے اور اردو ادب میں بہادر شاہ ظفر کا شاعرانہ کلام، مولانا محمد حسن آزاد کی آپ بیتی، فیض کا زنداں نامہ، حمید اختر کی کال کوٹھڑی، احمد ندیم قاسمی کی دشت وفا الغرض ان جواہر خانہ افکار کی ایک لمبی فہرست ہے جو تنہائی اور یوم اسیری میں تخلیق کیے گئے۔ لیکن اپنی مرضی سے سماجی علیحدگی اختیار کر لینا یا حاکم وقت کے حکم پر پابند سلاسل ہونا شاید ایک وبا کے خوف سے گھروں میں قید ہو جانے سے مختلف تجربہ ہے۔ کسی بھی تخلیقی عمل کے لیے گوشتہ تنہائی میں انسان کو کسی حد تک ذہنی یکسوئی چاہیے ہوتی ہے لیکن جب ذہن کی دیواریوں پہ خوف کے سائے منڈلا رہے ہوں اور حو اس اندیشیوں کے زہر میں ڈوبے ہوئے ہوں اور ٹیلی فون کی ہر گھنٹی پہ دل کانپ جاتا ہو تو تخلیق کا پنچھی کوئی اُڑان نہیں بھر پاتا۔

اب رات کو سونے کے لیے آنکھیں بند کروں تو دل میں یہ خواہش اُبھرتی ہے کہ جب صبح سو کر اٹھوں تو سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے، میرے شہر کی ماند رونقیں لوٹ آئیں۔ اس کی ہنگامہ خیزی اور ہمہماہٹ جو پہلے کبھی کبھی دل پہ گراں گزرتی تھی، وہ کسی طرح واپس آ جائے اور ہم دوبارہ ان گلیوں کی اُجیالی دھوپ میں بے دھڑک اور بے مقصد گھومیں، اے کاش اب اس رواں سال میں اور کسی کا پیارا اس سے نہ بچھڑے۔ کوئی اور اندوہناک خبر سماعت تک نہ پہنچے۔ اے کاش وبا کا یہ طویل اداس موسم ختم ہو جائے۔ بقول منیر نیازی

معدوم ہوتی جاتی ہوئی شے ہے یہ جہاں

ہر چیز اس کی جیسے فنا کی مثال ہو

کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیرؔ

ان روز و شب میں ایسا بھی اک دن کمال ہو