آرمی ایکٹ میں تبدیلی سے ایک نہیں دو بیانیے دم توڑیں گے

آرمی ایکٹ میں تبدیلی سے ایک نہیں دو بیانیے دم توڑیں گے
ن لیگ کے کچھ رہنماؤں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع دینے اور اس کے لئے قانون سازی کی حمایت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بیانئے کے برعکس 2018 کا الیکشن شفاف تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں آرمی کی طرف سے الیکشن میں کوئی مداخلت نہیں کی گئی۔

اس طرح ووٹ کی عزت کا بیانیہ بغیر غسل اور بغیر نماز جنازہ کے خود ہی اپنی قبر کھود کر اس میں دفن ہو جائے گا۔ یا پھر ن لیگ کے کچھ رہنما سب سمجھتے ہوئے بھی ایسے انجان بن رہے ہیں جیسے ان پر ہی وہ گانا لکھا گیا ہے جس کے بول کچھ یوں ہیں۔

لئے آنکھوں میں غرور

ایسے بیٹھے ہیں حضور

جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں

اس پر ن لیگ کے کارکن بھی مریم نواز سے مخاطب ہوکر گنگنا اٹھے کہ

نگاہوں میں بسا کر ہمیں اپنا بنا کر

اچانک بے رخی کیوں؟یکایک بے دلی کیوں؟

نہ وہ حسن تکلف نہ وہ شیریں تبسم

منائیں کس طرح؟وہ بات کوئی مانتے نہیں

کرکے دل کا شیشہ چور ایسے بیٹھے ہیں حضور

جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں

اس فیصلے کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر کارکنان کے شدید ردعمل کو دیکھتے ہوئے مریم نواز نے ٹویٹر پر ن لیگ کے۔پی۔کے کے سوشل میڈیا کے صدر عالمگیر خان کی کچھ  ٹویٹس کو لائیک کیا جس سے اشارہ ملتا ہے کہ ان سے آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق کوئی مشاورت نہیں کی گئی یا پھر وہ اس ترمیم کے حق میں نہیں ہیں۔

نواز شریف تو اپنی سیاسی اننگز تقریبا پوری کر چکے ہیں لیکن اگر اس ترمیم کی حمایت کی گئی تو مریم نواز کی سیاست کے لئےایک بڑادھچکا ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ مریم نواز دراصل مریم نواز نہیں بلکہ وہ نواز شریف کی سیاسی جانشین بھی ہیں اور بحیثیت وزیراعظم نواز شریف کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی کسی آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی اور نہ اس کی حمایت کی، بلکہ اس کے برعکس نواز شریف وہ واحد وزیراعظم ہیں جن سے اختلافات کے نتیجے میں سابق آرمی چیف جہانگیر کرامت کو استعفی دینا پڑا تھا، اس کے علاوہ نواز شریف نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے اپنا وہ آئینی اختیار بھی استعمال کیا جس کے ذریعے آرمی چیف پرویز مشرف کو اپنے عہدے سے برطرف کر دیا تھا یہ الگ بات ہے کہ اس وقت کی فوجی قیادت نے اس حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے مارشل لاء لگا کر پرویز مشرف کو عہدے پر بحال کر دیا تھا، فوج کی طرف سے ایسے ردعمل کے بعد سے لگتا یوں ہے کہ آئندہ قیامت تک پاکستان کا کوئی وزیراعظم یہ اختیار استعمال نہیں کر سکے گا بلکہ یہ اختیار تو دور اب توسیع کو قانونی شکل ملنے سے سول ملٹری تعلقات میں اس بات پر بھی بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے کہ توسیع کے قانون کی موجودگی میں ایک آرمی چیف وقت پر ریٹائر کیوں ہو؟ اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ حکومت آرمی چیف سے خوش نہیں اور اپنا آرمی چیف لانا چاہتی ہے جس کا ایک الگ ردعمل سامنے آئے گا۔ اس ردعمل سے بچنے کے لئے حکومت اور آرمی چیف کو ہر بار وضاحت دینی پڑے گی کہ حکومت توسیع دے رہی ہے تو کیوں؟ اور نہیں دے رہی تو کیوں؟ آیا آرمی چیف خود توسیع نہیں لینا چاہتے یا لینا چاہتے ہیں تو کیوں ؟

میں ایک بات واضح کرتا چلوں کے میرے تجزیے کا مقصد آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی حمایت یا مخالفت نہیں ہے، میں صرف مشاہدات سے ابھرنے والے عوامی تاثرات کو تجزیے کی شکل دے رہا ہوں جس کا مقصد نظام کی بہتری ہے میری نظر میں اس سے بہتر قانون سازی یہ ہوسکتی تھی کہ تمام آرمی افسران یا تمام سرکاری سول و فوجی افسران اور ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں بھی 4 سال کا اضافہ کردیا جاتا اس سے ایک فائدہ یہ ہوتا کہ کسی کی حق تلفی نہیں ہوتی اور دوسرا یہ تاثر بھی زائل ہو جاتا کہ قانون سازی مخصوص حالات میں کسی خاص شخصیت اور خاص مقصد کے لئے کی جا رہی ہے اور تیسرا فائدہ یہ ہوتا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ماہانہ پنشن کے بھی چار سال کم ہو جاتے۔ اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تقریبا اسی قسم کے اعتراضات نے اس وقت بھی جنم لیا تھا جب نواز شریف کی نااہلی کے بعد الیکشن ریفام بل کی منظوری کے بعد نواز شریف نے پارٹی صدارت دوبارہ سنبھالی تھی اور جب نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت دے کر باہر جانے کی اجازت دی گئی تو اس پر بھی یہ اعتراض ہوا کہ یہ سہولت تمام قیدیوں کو میسر ہونی چاہیے۔

نواز شریف آرمی چیف کی توسیع کو کتنا پسند کرتے ہیں اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہےکہ نواز شریف نے راحیل شریف کو بھی توسیع نہیں دی جو کہ عوامی سطح پر کافی مقبول آرمی چیف تھے جن کی قیادت میں پاکستان کی اندرونی سیکیورٹی اور امن امان کی صورت حال میں واضح بہتری محسوس کی گئی یہی وجہ ہے کہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کی تاریخ میں جنرل راحیل شریف واحد آرمی چیف گزرے ہیں جن کی توسیع کی خواہش نہ صرف فوج بلکہ عوامی سطح پر بھی پائی جاتی تھی، اس کے علاوہ کچھ باخبر حلقے یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ  راحیل شریف خود بھی توسیع چاہتے تھے اور ان کی ریٹائرمنٹ سے کچھ پہلے عمران خان کی طرف سے اسلام آباد دھرنا پلس لاک ڈاؤن کی کال اور احتجاج اور ڈان لیکس جیسے معاملات پر سول ملٹری اختلافات بھی توسیع کے ارد گرد گھومتے تھے۔

 کچھ باخبر حلقوں کی طرف سے یوں بھی تبصرہ ہوتا رہا ہے کہ اگر نواز شریف جنرل راحیل شریف کو توسیع دے دیتے اور کچھ باتیں مان لیتے تو ان کی مشکلات میں کمی آسکتی تھی اور وہ چوتھی بار بھی ملک کے وزیراعظم بن سکتے تھے۔ ایک مقبول آرمی چیف اور مشکل حالات کے باوجود بھی نواز شریف نے آرمی چیف کو توسیع نہیں دی تو اب ایسا کیا ہوا ہے کہ ن لیگ آرمی چیف کو توسیع دینے کیلئے قانون سازی کا حصہ بننے جارہی ہے؟

بظاہر سیکیورٹی صورت حال اتنی خراب نظر نہیں آتی جتنا بتایا جارہا ہے اور پھر بھارت بھی اسی خطے کا حصہ ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں بھارت سے اور بھارت کو ہم سے خطرہ ہے لیکن بھارت میں ایک کمرے میں آرمی چیف کی تبدیلی کی تقریب ہوئی اور نئے آرمی چیف نے عہدہ سنبھال لیا۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کی وجہ سے 9/11 جیسی صورت حال دوبارہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو جو کہ مائیک پومپیو کی آرمی چیف سے حالیہ ٹیلی فونک گفتگو سے بھی ظاہر ہورہی ہے جس میں انہوں نے عراق میں امریکی حملے کے نتیجے میں جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد خطے پر اس کے ممکنہ اثرات سے آگاہ کیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ٹیلی فونک کال 9/11 کے بعد بش کی مشرف کو کی گئی کال کے مترادف ہے ؟ یا نہیں اس سوال کا جواب آنے والا وقت بہتر طور پر دے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے اس تناظر میں کچھ ایسی معلومات حکومت پاکستان، فوج اور وفاق کی اٹیلیجنس ایجینسیزکے پاس موجود ہوں جن کی وجہ سے حکومت اور فوج آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو ناگزیرسجھتے ہیں۔

اور ان معلومات پر در پردہ دیگر اپوزیشن کی سیاسی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہو اسی لئے تمام سیاسی قیادت آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

لیکن عام عوام کے پاس یہ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے تاثر یہ بن رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو ڈر ہے کہ اگر کوئی نیا آرمی چیف آگیا تو فوج کی طرف سے حکومت کو حاصل حمایت ختم یا مشروط ہوسکتی ہے اور ووٹ کو عزت دو نعرے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مقتدر قوتوں کو بھی اس نعرے کے غالب آجانے کا خدشہ ہے، اسی لئے وہ بھی کچھ نرمی دکھا کر معاملہ رفع دفع کرنا چاہتے ہیں۔

ایک خیال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی پر تمام اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے فوج پر تنقید کی وجہ سے فوج کا مورال اور عوام میں فوج کا تاثر خراب ہوا ہے اور پھر ان حالات میں فضل الرحمن کے دھرنے نے بغیر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی شرکت کے یہ بات بھی واضح کر دی کہ مقتدرہ کے خلاف بھی لوگوں کو باہر نکالا جاسکتا ہے اور اگر پیپلزپارٹی اور ن لیگ بھی اس مارچ میں بھرپور شرکت کرتی تو صورت حال قابو سے باہر ہونے کا واضح امکان تھا اور ایک بہت بڑا اور طویل احتجاج کیا جاسکتا تھا۔اس لئے اب مقتدر قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ ایک نئے الیکشن کے ذریعے اس تاثر کو زائل کیا جائے کہ موجودہ آرمی چیف کی قیادت میں 2018 کا الیکشن شفاف نہیں تھا۔

دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ اس دھرنے کے بعد سے ہی اپوزیشن جماعتوں کو ریلیف ملنے کا سلسلہ شروع ہوا، پہلے نواز شریف پھر آصف زرداری مریم نواز اور رانا ثنااللہ و دیگر کو ریلیف دیا گیا اور پھر آصف زرداری کو کراچی اور نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی ملی بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان تمام تر واقعات کا آپس میں گہرا تعلق ہے، جن دنوں یہ ریلیف مل رہا تھا اس وقت عمران خان پر شدید تنقید بھی ہو رہی تھی کہ ان کا کرپشن ختم کرنے، این آر او نہ دینے ، اور انگلی ہلا ہلا کر کسی کو نہ چھوڑنے اور سب کو جیلوں میں ڈالنے کا بیانیہ دم توڑ رہا ہے اور تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے رہا ہے۔

امید کی جاسکتی ہے کہ سال 2020 میں ہی اس بیانیے کا نماز جنازہ بھی ادا کردیا جائے گا۔

اس تمام تر صورت حال میں دیکھا جائے تو سوائے عمران خان اور مریم نواز کے باقی سب کے لئے ون ون صورت حال ہے ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے سسٹم میں وائرس کے آنے سے پیدا ہونے والی خرابی کے ڈر سے پینک میں restore factory setting کا بٹن دبا دیا ہے جس سے سسٹم اپنی ابتدائی 2008 کی setting پر دوبارہ بحال ہورہا ہے۔ یعنی سب سے پہلے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی ضمانتوں سے عمران خان کے کرپشن بیانیے نے دم توڑنا شروع کیا اور پھر نواز شریف کے ملک سے باہر جانے اور مریم نواز کی خاموشی کے بعد اب جس آرمی چیف کی قیادت میں فوج پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگاتے رہے اسی آرمی چیف کی توسیع کے لئے قانون سازی کا حصہ بننے سے ووٹ کی عزت کا بیانیہ بھی تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے رہا ہے۔ اس تمام کھیل کے اختتام پر تحریک انصاف  ق لیگ کی طرح اپنی ناقص حکومتی کارکردگی اور این آر او دے کر انتہائی غیر مقبول ہوتی نظر آ رہی ہے اور مریم نواز ووٹ کی عزت کے بیانیے پر خاموشی کی وجہ سے  مقبولیت میں کمی کا سامنا کریں گی لیکن یہ وقتی ہوگا کیونکہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس وقت مریم نواز پارٹی ڈسپلن اور خاندانی روایات کی وجہ سے بھی خاموش ہیں کیونکہ اس وقت قیادت شہباز شریف کے پاس ہے جبکہ ن لیگ کو اس صورت حال میں 2008 کی طرح پنجاب حکومت مل سکتی ہے اور بلاول اس تمام تر صورت حال میں مقتدر قوتوں کے لئے سب سے زیادہ قابل قبول رہنما کے طور پر ابھریں گے، باوجود اس قربت کے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کبھی ووٹ کی عزت کا نعرہ نہیں لگاتی۔

ایک ممکنہ صورت حال یہ بھی ہوسکتی کہ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تو سسٹم 2008 کے بجائے 1999 یا 2002 کی پوزیشن پرچلا جائے اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو آمین۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔