بلوچستان، جسے صحافیوں کا قبرستان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا

بلوچستان، جسے صحافیوں کا قبرستان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں صحافیوں کے لئے خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔ اور اگر پاکستان میں بات کی جائے بلوچستان کی تو یہ وہ علاقہ ہے جہاں صحافیوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے دوران سب سے زیادہ چیلینجز کا سامنا رہتا ہے۔

خلیل احمد، قوئٹہ


کوئٹہ کے صحافی خلیل احمد کہتے ہیں کہ پچھلے دس سالوں میں بلوچستان کے 48 صحافی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے جان سے جا چکے ہیں۔ کوئٹہ میں علیحدگی پسند تنظیمیں اورمذہبی تنظمیں تو مسئلہ ہیں ہی لیکن یہاں سرکاری ادارے بھی صحافیوں کے فرائض کی انجام دہی میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں کیونکہ علیحدگی پسند تنظیمیں اور مذہبی تنظیمیں صحافیوں پر اپنا مؤقف چھاپنے کے لئے دباو ڈالتی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب سرکار کی جانب سے صحافیوں کو کہا جاتا ہے کہ اس کیس میں عدالتی فیصلہ ہے یا دیگر مسائل ہیں اس لئے آپ اسے شائع نہیں کرسکتے۔ جس کی وجہ سے یہاں صرف طالبان ہی نہیں بلکہ داعش کی جانب سے بھی صحافیوں کو متعدد بار کوئٹہ پریس کلب کو بم سے اڑانے سے لے کر صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ میں مارنے کی دھمکیوں تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔



اس شہر میں بم دھماکوں کے علاوہ آٹھ صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ہمیشہ کے لئے خاموش کرایا جا چکا ہے۔ حکومت سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ اور کچھ نہیں لیکن امداد ضرور کرتے ہیں۔ اب تک بم دھماکوں میں شہید اور زخمی ہونے والوں کوحکومت کی جانب سے امدادی رقم ملی ہے لیکن جو صحافی ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے ان میں سے بہت سے ابھی تک اس رقم سے بھی محروم ہیں۔ پولیس کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والے صحافیوں کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کی جاتی۔

کوئٹہ سے زیادہ خراب صورتحال پنجگور، تربت اور خضدار کی ہے۔ اس شہر میں صحافتی تنظیمیں اپنی اس صورتحال کیخلاف آواز تو اٹھاتی ہیں لیکن ان کی آواز اتنی مضبوط نہیں جتنی اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی صحافی تنظیموں کی ہے۔

خضدار پریس کلب


ڈسٹرکٹ خضدار میں گذشتہ دس سالوں میں آٹھ صحافی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ خضدار پریس کلب کے صدرعبداللہ شاہوانی کہتے ہیں کہ قبائلی نظام اور علیحدگی پسند تنظیموں کی وجہ سے یہاں صورتحال سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ علیحدگی پسند تنظیمیں باقاعدہ صحافیوں کوبتاتی ہیں کہ جس کو وہ کہیں اسے شہید لکھا جائے اور جس کو وہ بولیں اسے ہلاک لکھا جائے۔ یہی نہیں بلکہ انہیں خبر لگوانے کے حوالے سے بھی ڈکٹیٹ کیا جاتا رہا ہے۔ نہ ماننے کی صورت میں صحافیوں کو جو صورتحال برداشت کرنی پڑی وہ ناقابل بیان ہے۔

عبدللہ شہوانی، صدر خضدار پریس کلب


خضدار کے صحافیوں کے آئے روز قتل کے واقعات کی وجہ سے خضدار پریس کلب کو شہداء پریس کلب بھی کہتے ہیں۔ یہاں صرف صحافی نہیں بلکہ ان کے اہلخانہ کی زندگی بھی شدید خطرات سے دو چار رہتی ہے۔ ایک صحافی کے دو بیٹوں کو بھی محض اسی جرم میں قتل کر دیا گیا کہ ان کا والد ایک صحافی ہے۔

گوادر کے بعد خضدار سی پیک کے اہم جنکشنز میں سے ایک ہے لیکن اس کے باوجود انتظامیہ اب تک یہاں خاطر خواہ توجہ دینے سے قاصر ہے۔ میڈیا ہاؤسز سے منسلک صحافی بھی یہی شکایت کرتے نظرآتے ہیں۔ اگرکوئی صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے دوران زخمی یا شہید ہو جائے تب بھی حکومت کی طرف سے ان کے یا ان کے اہل خانہ کے لئے کوئی امداد نہیں ہوتی۔

منیر نور، خضدار


خضدار پریس کلب کے جنرل سیکرٹری منیرنور صحافیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بولے کہ بلوچستان کا تیسرا بڑا شہر ہونے کے باوجود اس شہر کے صحافی بنیادی ضروریات سے ہی محروم ہیں۔ اسی شہر سے بلوچستان کے چار وزرا کا تعلق ہے لیکن وہ ووٹ لینے کے بعد کبھی بھی صحافیوں کی خبرگیری کرنے نہیں آتے۔ خضدار میں سرکار، سردار اور امیر معتبر لوگوں کے خلاف خبر لگانے پر صحافیوں کو صرف فون پر ہی دھمکیاں نہیں ملیں بلکہ اکثر صحافیوں کوکفن، سوئیاں، دھاگے اور لیٹر کی صورت میں بھی تحفے بھجوائے گئے ہیں۔ اب سے چند سال قبل تک شہر کی خراب صورتحال کے پیش نظر پریس کلب کئی سالوں تک بند بھی رہا۔ اس شہرکے صحافیوں کو شہربھی چھوڑنا پڑا۔ لیکن اقتدار میں بیٹھے کسی بھی لیڈر نے بلوچ صحافیوں کے لئے آواز نہیں اٹھائی۔ حد تو یہ ہے کہ صحافیوں کے قتل پر قانون نافذ کرنے والے ادارے ایف آئی آر درج کرنے سے بھی قاصر ہیں، مجرم پکڑنا تو دور کی بات ہے۔ یہاں صحافیوں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ایک صحافی کی تدفین کے بعد فوراً دوسرے صحافی کی میت اٹھانے کے لئے جانا پڑا ہو۔



خضدار پریس کلب کے ایک اور ممبر عبدالواحد کے مطابق صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے الیکٹرونک میڈیا مالکان انہیں استعمال تو کرتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ انہیں نہ تنخواہ وقت پر دیتے ہیں اور نہ ہی دیگر مراعات۔ یہاں صحافی بغیر مراعات کے دھماکوں میں زخمی حالت  میں بھی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے ہیں۔

کرخ پریس کلب


صرف خضدار ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے ہی دوسرے ضلع کرخ میں بھی صورتحال کچھ خاص مختلف نہیں ہے۔ کرخ کے مقامی صحافی ظہوراحمد کہتے ہیں کہ اس ضلع میں بھی قبائلی نظام صحافتی ذمہ داریاں نبھانے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ یہاں اگر دو فریقوں میں سے کسی ایک کی خبر کو زیادہ کوریج مل جائے تب بھی صحافی کے لئے مشکل کھڑی ہو جاتی ہے۔ اور قبائلی عمائدین صحافی کو دھمکی دینے تک آجاتے ہیں۔

مصنفہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک ہیں اور مختلف صحافتی اداروں میں خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔