پاکستان کو درپیش مالیاتی مشکلات کا خاتمہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

پاکستان کو درپیش مالیاتی مشکلات کا خاتمہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
پاکستان شدید مالیاتی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ مالیاتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کرنے، مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنے، حقیقت پسندی اور معروضیت پر مبنی مارکیٹ کے مواقع مہیا کرنے، قانون کی خلاف ورزی کا رجحان ختم کرنے اور بااثر افراد کی طرف سے ناجائز طریقوں سے بھاری منافع کمانے کا طریقے مسدود کرنے اور حکمرانوں کی طرف سے اندھا دھند قرض لینے اور شاہوں کی طرح خرچ کرنے کا وطیرہ بدلنے کے لیے درکار سیاسی عزم کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ ماہرین ان امراض کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں لیکن حکومت اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ آئین کی واضح ہدایت کے باوجود حکمران اشرافیہ انتظامی، سیاسی اور مالی اختیارات مقامی حکومتوں تک منتقل کرنے پر آمادہ نہیں۔ آئین پاکستان کی شق A 140 کی کھلی خلاف ورزی پر اب تک عدالت عظمیٰ نے بھی کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا۔

مالی عدم مرکزیت اور شہری سہولیات کی فراہمی کو عالمی طور پر مسلمہ اور قابل عمل سماجی پالیسی، جو شہریوں کی سماجی اور شہری سہولیات تک رسائی کی ضمانت دیتی ہے، کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ نمائندگی کے بغیر ٹیکسز کا نفاذ کرتے ہوئے ہیلتھ کیئر، تعلیم، عوامی ٹرانسپورٹ، پینے کے صاف پانی، سماجی سہولیات، توانائی (بجلی اورگیس وغیرہ) کی فراہمی، بے کار مادوں کو ٹھکانے لگانے، گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور ماحول کو مدِنظر رکھتے ہوئے تعمیرات کی اجازت دینے کے معاملات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

اس وقت ٹیکسز وصول کرنے کے زیادہ تر اختیارات وفاقی حکومت کے پاس ہیں جبکہ صوبے کل محصولات کا صرف 7 فیصد حصہ اکٹھا کر رہے ہیں جبکہ ٹیکس اور غیر ٹیکس ریونیو کو ملا کر صوبے قومی محصولات کا 8 فیصد جمع کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے اخراجات کے لیے مکمل طور پر وفاقی حکومت پر انحصار کرتے ہیں۔ اس میں پریشان کن بات یہ ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت گیس، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سروسز پر عائد کیا جانے والا سیلز ٹیکس اور کئی اشیا پر ایکسائز ڈیوٹی وفاقی حکومت وصول کرتی ہے۔ اس طرح صوبوں کے ٹیکس کے استحقاق کی پامالی کرتے ہوئے ٹیکس وصول کرنے کے باوجود وفاقی حکومت بھاری بھرکم مالیاتی خسارہ پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ 2013-14 میں یہ خسارہ 1.8 ٹریلین روپے تھا جبکہ اس سال 8 ٹریلین روپے تک جا پہنچنے کا خدشہ ہے۔

بدقسمتی سے صوبوں کو اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ اپنے وسائل خود پیدا کریں۔ اگر ایسا ہوتا تو موجودہ پریشان کن مالیاتی بحران سے بچا جا سکتا تھا۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ صوبوں کے پاس سیلز ٹیکس وصول کرنے کے درکار انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔ تاہم یہ دعویٰ درست نہیں کیونکہ سندھ اور پنجاب نے 2011 اور 2012 میں اپنا ٹیکس اپریٹس قائم کرتے ہوئے سروسز پر ایف بی آر سے زیادہ ٹیکس جمع کر لیا تھا۔ 2013 میں خیبر پختونخوا نے بھی ان کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے بہت اچھے نتائج دیے۔

اس وقت ہمیں فوری طور پر آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے تا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان منصفانہ ٹیکس کا نظام قائم کیا جا سکے۔ جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا، صوبوں کو بہت حد تک این ایف سی پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اشیا کے استعمال پر بالواسطہ ٹیکس وصول کرنے کا حق صوبوں کو مل جائے تو وہ آخر وفاقی یونٹس کو ہی تقویت دیں گے اور اس طرح جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس وصول کرنا ممکن ہو جائے گا۔ سیلز ٹیکس کے حوالے سے صوبوں پر عدم اعتماد کرنا حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ اگر اشیائے ضرورت پر سیلز ٹیکس اکٹھا کرنے کا حق صوبوں کو سونپ دیا جائے جیسا کہ آزادی کے وقت ان کے پاس تھا تو ان کی اس ضمن میں کارکردگی نکھر کر سامنے آئے گی۔

تاہم زرعی ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے صوبوں کی کارکردگی یقینی طور پر بہت افسوس ناک ہے، لیکن اس حمام (زرعی ٹیکس کا نفاذ) میں وفاق کا حال بھی صوبوں سے بہتر نہیں کیونکہ ملک کی مجموعی اشرافیہ، چاہے اس کا تعلق وفاق سے ہو یا صوبائی حکومتوں سے، تمام تر سیاسی اختلاف کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ دولت مند جاگیرداروں کو ٹیکس کی زحمت سے بچایا جائے۔ چنانچہ تسلی بخش زرعی پیداوار کے باوجود مالی سال 2022-23 میں صوبوں اور وفاق نے مجموعی طور پر 3 بلین روپے سے کم زرعی ٹیکس جمع کیا۔ وفاقی سطح پر تو زرعی ٹیکس کا نفاذ تاحال نہیں کیا گیا ہے۔ ملک و قوم کا درد رکھنے والے حلقوں کے لیے یہ ایک قابل تشویش بات ہے۔ ضروری ہے کہ زرعی ٹیکس اور انکم ٹیکس کی وصولی وفاق کے پاس رہے جبکہ سیلز ٹیکس وصول کرنے کا حق صوبوں کو دیا جائے۔

اگرچہ صوبوں کو اپنے ہاں تیار کردہ اشیا پر براہِ راست ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں لیکن وفاقی حکومت بھی واجب ٹیکس کی وصولی میں ناکام ہو چکی ہے۔ ایف بی آر کی ناکامی نے صوبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 2022-23 کے مالی سال کے دوران ایف بی آر کی کوتاہی کی وجہ سے ٹیکس کی وصولی میں تقریباً 400 بلین روپے کی کمی رہی، اس لیے چاروں صوبے این ایف سی میں اپنا واجب حصہ وصول نہ کر سکے۔ ایس آر اوز کے تحت ٹیکس میں چھوٹ اور رعایت دینے کی پالیسی کی وجہ سے اس سے کہیں زیادہ مالیاتی خسارہ ہو جاتا ہے جس کا ہر بجٹ میں اعتراف کیا جاتا ہے۔

ایف بی آر ہر سال ٹیکس کے طے شدہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہ جاتا ہے۔

معروف کالم نگار شاہد جاوید برکی کی رائے کے مطابق 40 ملین افراد کے معیار زندگی میں بہتری آئی ہے۔ ملک کی معاشی گراوٹ کے باوجود 15 ملین افراد کی زندگی میں خوشحالی کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ کل آبادی میں سے 15 ملین افراد ایسے ہیں جنہیں دولت مند قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ 25 ملین افراد کو اپر مڈل کلاس میں شمار کیا جا سکتا ہے جبکہ 65 ملین افراد سفید پوش ہیں۔ اتنے ہی افراد وہ ہیں جنہیں غریب قرار دیا جا سکتا ہے۔

تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارا ٹیکس کا نظام ان 15 ملین دولت مند افراد سے نظریں چرا کر مڈل کلاس اور غریب افراد پر ٹیکس عائد کرتا ہے۔

اپنے کالموں میں ہم بار ہا اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ ملک میں 16 ٹریلین ٹیکس حاصل کرنے کی گنجائش موجود ہے، لیکن ایف بی آر اس گنجائش سے کہیں کم ٹیکس جمع کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک میں مالیاتی بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو پاکستان مزید بحران کی دلدل میں دھنستا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں امیر مزید دولت مند اور غریب مزید غریب ہوتے جائیں گے۔ اگر ہم اس بحران سے نجات چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ کو صوبوں اور وفاق کے درمیان موجودہ سوشل کنٹریکٹ پر نظرثانی کرنی ہو گی۔ ٹیکس وصول کرنے کے حق کی غیر موجودگی میں صوبائی خودمختاری کا تصور مہمل اور دھندلا رہے گا۔

ایک بات طے ہے کہ ہم دولت مند افراد پر ٹیکس لگائے بغیر اپنے مالیاتی مسائل پر قابو نہیں پا سکتے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی مصلحتوں سے کام لینے کی پالیسی ترک کر دی جائے۔ جمہوریت اور ریاست پر صرف 15 ملین امیر افراد کا ہی نہیں، دیگر 215 ملین افراد کا بھی حق ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے وفاق صوبوں کو زیادہ سے زیادہ وسائل پیدا کرنے اور ان پر ٹیکس لگانے کی اجازت دے تا کہ ملک پر طاری مالیاتی جمود کو توڑا جا سکے۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔