نواز شریف کو نااہل کرنے کے لیے عدلیہ کو استعمال کیا گیا: حامد خان

نواز شریف کو نااہل کرنے کے لیے عدلیہ کو استعمال کیا گیا: حامد خان
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما اور ماہر قانون حامد خان نے کہا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل کرے کا فیصلہ تو عدالتی فیصلے سے پہلے ہی ہو چکا تھا جبکہ عدلیہ کو صرف فیصلہ سنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

پی ٹی آئی رہنما حامد خان نے جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو نااہل کرنے کے لیے عدلیہ کا استعمال کیا گیا۔ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ عدالتی فیصلے سے پہلے کہیں اور ہو چکا تھا۔ عدلیہ نے صرف نااہلی کا فیصلہ سنایا تھا۔

حامد خان نے کہا کہ نواز شریف سمجھتے تھے کہ وہ عدلیہ کو ہینڈل کر لیں گے۔ بعد میں نواز شریف کو احساس ہوا کہ ایسا شاید نہیں ہو سکے گا کیونکہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ انہیں نااہل کرنے کا فیصلہ کہیں اور ہو چکا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس تمام معاملے کو رونما ہونے کی ترتیب سے دیکھا جائے تو ان کو حکومت سے فارغ کروانے کا تو پہلے ہی سوچ لیا گیا تھا تاہم جب تک اس پر عمل درآمد کر سکے تب تک پاناما پیپر والے معاملے پر کارروائی کا آغاز ہو چکا تھا۔

https://twitter.com/murtazasolangi/status/1676302353539149824?s=20

واضح رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔

“پاناما پیپرز” لیکس کے نتیجے میں نواز شریف کے خلاف جاری مقدمے میں عدالت کی 5 رکنی بینچ کی جانب سے یہ تاریخی فیصلہ سنایا گیا تھا۔ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ تھے جب کہ بینچ میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس عظمت سعید شیخ شامل تھے۔

20 اپریل کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما پیپرز کے معاملے پر اپنا ابتدائی فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کے غیر ملکی اثاثوں کی مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے 60 روز کی مہلت دی گئی تھی.جس کے بعد ’جے آئی ٹی‘ نے اپنی رپورٹ 10 جولائی کو عدالت عظمٰی میں پیش کر دی تھی۔

بعد ازاں پاناما کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 'جے آئی ٹی' کی رپورٹ پر پانچ روز تک فریقین کے دلائل اور اعتراضات سننے کے بعد 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا  جو کہ 28 جولائی کو سنایا گیا۔