سپریم کورٹ کے صرف ایک وکیل کے کلائنٹس کے 600 ارب روپے کے ٹیکسوں پر عدالتوں نے سٹے آرڈر دے رکھے ہیں۔ آزاد کشمیر میں حکومت کچھ پروجیکٹس مکمل کرنا چاہ رہی تھی مگر اس پر عدالتوں نے سٹے دے رکھا تھا۔ اس پر عوامی نمائندے کا ردعمل تو سامنے آنا ہی تھا۔ یہ نااہلی عدلیہ کی جانب سے صریح زیادتی ہے۔ یہ کہنا ہے صحافی عبدالقیوم صدیقی کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 14 اپریل کے بعد الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کو تجاویز دے گا کہ اب کیا کیا جائے، اس کے بعد سپریم کورٹ احکامات جاری کرے گی۔ ابھی یہ طے ہونا بھی باقی ہے کہ یہ فیصلہ 3-4 کا ہے یا 2-3 کا تو اتنی جلدی وزیراعظم یا کابینہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنا ممکن نہیں ہے۔ الیکشن کے لیے فنڈز کا بندوبست کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ یہ رجسٹرار سپریم کورٹ کا اکاؤنٹ تو ہے نہیں جس میں ملک ریاض کی جانب سے جمع کروائے گئے 190 ملین پاؤنڈ پڑے ہیں۔ ڈیم فنڈ کا اکاؤنٹ بھی نہیں ہے جس میں سے سپریم کورٹ نے پیسے لے کر انویسٹ کر رکھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے لطیف کھوسہ صاحب بھی اسی وائرس کا شکار ہو چکے ہوں جو وائرس اعتزاز احسن کو لگا ہے تاہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد توہین عدالت سے متعلق ترمیمی آرڈیننس پارلیمنٹ نے بنایا تھا جسے سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ اب بھی سپریم کورٹ عدالتی اصلاحات بل کا جائزہ لے سکتی ہے مگر حتمی طور پر ایوان کی بات ہی کو مقدم سمجھا جائے گا۔
قانون دان رضا رحمان نے کہا کہ عدلیہ سے متعلق اگر سکینڈل نہیں بنانے چاہئیں تو دوسری جانب عدلیہ کو بھی دیکھ سوچ کے فیصلے دینے چاہئیں۔ تمام اداروں کو اپنے دائرے میں رہنا چاہئیے۔ کچھ عرصے سے پیپلز پارٹی نے دوغلی پالیسی اپنا رکھی تھی تو شاید اب اسی تاثر کو زائل کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل میں شامل اپیل کا حق مسئلہ پیدا کر سکتا ہے ورنہ باقی اصلاحات تو ہرگز قابل اعتراض نہیں ہیں۔ چیف جسٹس کے دائرہ اختیار کو سٹرکچر کیا جا رہا ہے تو اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو آزاد کشمیر میں مشروم کی طرح چند ہی دنوں میں اگایا گیا۔ سردار تنویر الیاس جہانگیر ترین کے بعد عمران خان کے نئے اے ٹی ایم کے طور پر سامنے آئے تھے۔ بہرحال عدالتوں کو منتخب نمائندوں کو اس طرح گھر نہیں بھیجنا چاہئیے۔ صوابدیدی اختیارات آمرانہ رویے کو جنم دیتے ہیں۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔