پاکستان کی تباہی و بربادی میں بہت سے اداروں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ اعلیٰ عدالتیں جن کی بنیادی آئینی ذمہ داری بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ ، ان پر عملدرآمد، آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوتا ہے ، نے مختلف ادوار میں قانونی فقہ و تشریح کا سہارا لیتے ہوئے نظریہ ضرورت کے بل بوتے پر اپنے فیصلوں سے آئین شکن طالع آزما حکمرانوں کو دوام بخشا ہے ۔
31 جولائی ، 2009 کے سپریم کورٹ کے فیصلہ میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے پی سی او ججز کی تقرری اور 2007 کی ایمرجنسی، اس کے تحت کیے گئے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا اور مستقبل میں کسی جج کو آمر حکمرانوں کا آلہ کار بننے اور نہ ہی ان کے غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دینے سے روک دیا ، تو اس سے یہ عوامی تاثر ابھرا کہ گویا اب نظریہ ضرورت کا جن بوتل میں مُقَیَّد ہے اور اب یہ کبھی باہر نہیں آ سکے گا ۔ تاہم نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے سے لے کر مشرف کے حق میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے تک یہ تاثر بارہا زائل ہوتا رہا اور اس کے برعکس یہ تاثر تقویت پکڑتا رہا ہے کہ نظریہ ضرورت کا جن نہ صرف بوتل توڑ کر آزاد ہوچکا ہے ، بلکہ دن بہ دن مزید طاقتور بھی ہوتا جارہا ہے۔
جسٹس قاضی فیض عِیسیٰ ، جو اکثر و بیشتر بهنور کی زد میں رہتے ہیں ، ان کی بنیادی لڑائی ہی اپنے آئین کے حلف کی پاسداری اور اس میں درج بنیادی حقوق کے تحفظ کے عملدرآمد کی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ بلا خوف اور بغیر کسی طمع کے، ایک جج کو اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہونا چاہیے ۔ اس کے لیے وہ اکثر آئین میں تحریر شدہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے حلف اور آرٹیکل 5 کا بھی حوالہ دیتے رہتے ہیں ، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے مخالفین کو یہ بات گراں گزرتی ہے اور ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ سب سے اول، ان کے دھرنا کیس میں فیصلہ کو تختہ مشق بنایا گیا ، جس میں انھوں نے قومی اداروں کو اختیارات سے تجاوز پر سرزنش کی ۔ اس فیصلہ کو متنازع بنانے کی سر توڑ کوشش کی گئی ۔ جب کوئی تدبیر کام نہ آئی ، تو سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کردیا گیا ۔ ان کی سوشل میڈیا پر کردار کشی کی گئی اور ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کیا گیا ، جس کی دھول میں ان تمام آوازوں کو بھی دبانے کی کوشش کی گئی ، جنہوں نے ان کے حق میں ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آواز و قلم اُٹھانے کی جسارت کی ۔ قصہ مختصر ، قاضی صاحب نے ثابت قدمی سے اس قانونی لڑائی میں ہر محاظ پر اپنے ظاہری و باطنی دشمنوں کو چاروں شانے چت کیا ، لیکن قاضی صاحب کے مخالفین بھی ان پر وار کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہیں۔ کسی تفصیل میں جائے بغیر ، یہاں یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ تازه ترین قانونی محاز اس وقت کھولا ، جب قاضی صاحب نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ ودیگران کی درخواست پر ، آرٹیکل (3)184 کے تحت ، اپنے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ، متعلقہ حکومتی افراد و اداروں اور صحافتی تنظیموں کو نوٹسز جاری کیے اور عدالت میں طلب کیا۔ صحافی تنظیموں اور شخصی آزادیوں کے علمبردار وکلاء نے اس جرات مندانہ قدم کو خوب سرایا تاہم حکومتی حلقوں اور طاقت کے ایوانوں میں گویا بھونچال آگیا۔
سپریم کورٹ کے نئے نئے مقرر شده رجسٹرار صاحب ، جو موجودہ وزیراعظم صاحب کے آفس میں اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں ، اپنی وفاداری کے ثبوت میں آؤ دیکھا نہ تاؤ ، چھ صفحات پر مبنی ایک عدد نوٹ لکھ ڈالا، جو مبینہ طور پر ان کے دستخط سے جاری شده تھا ، جس میں بڑی عرق ریزی سے قاضی صاحب کے(3) 184 کے ماضی کے آرڈرز کو یکجا کرکے، ان پر تنقید کے نشتر چلائے گئے ۔ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس قاضی فیض عیسیٰ ، جن کا تعلق بلوچستان سے ہے ، ان کو شامل کیے بغیر ، ایکٹنگ چيف جسٹس ، عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کی تشکیل عمل میں آئی، جس نے دو رکنی بینچ کے آرڈر کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیا ، گويا معاملہ سپریم کورٹ میں سال ہا سال سے زیر التواء کیسز سے بھی انتہائی سنگین ، گھمبیر اور فوری توجہ کا متقاضی تھا !
قاضی صاحب کے مذکوره فیصلہ کو فی الفور "معطل“ کردیا گیا اور زبان وہی استعمال ہوئی جو آمروں کے منظور نظر آئینی ماہر، مرحوم شریف الدین پیرزاده صاحب آئین کو معطل کرتے وقت استعمال کیا کرتے تھے ۔ انگریزی اصطلاح hold in abeyance ہے ، جس کا آزادانہ ترجمہ کیا جائے تو یہ ہوگا کہ آئین کو قومہ میں بھیج دیا گیا ہے یا پرده اخفاء میں رکھ دیا گیا ہے۔
مختصر حكم نامے میں مزید یہ قرار دیا گیا کہ صحافی برادری زیر عتاب ہے اور ان کے دکھوں کا مداوا کیا جائے گا ۔ قاضی صاحب نے خم ٹھونک دیے اور سر تسلیم خم کرنے سے صاف صاف انکار کردیا اور پندرہ صفحوں پر مشتمل زور دار نوٹ کے ذریعے نہ صرف آرٹیکل (3) 184، بنیادی حقوق اور عدالتی آزادی پر جامع تبصرہ کرڈالا، بلکہ پانچ رکنی بینچ ، اس کی تشكيل ، رجسٹرار کی تقرری ، اس کے منفی کردار اور اس کے حکومت سے تعلقات کو بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے ہدف تنقید بنا ڈالا ، لیکن ابھی قاضی صاحب کے اس نوٹ کی سیاہی خشک نہیں ہوئی ہوگی کہ 26 اگست کو پانچ رکنی بینچ نے آئین پاکستان کے آرٹیکل (3)184 کا گلا گھونٹ کر ابدی نیند سلا ڈالنے کی اپنی سی سعی کی۔ ساتھ ہی ساتھ ، دورکنی بینچ کے آرڈر مورخہ 20 اگست کو ایک طرف تو واپس لے لیا اور نمٹا دیا اور دوسری طرف مذكره بالا درخواست کو چیف جسٹس کے پاس بھیج دیا گیا ، جس سے یہ معصومانہ سوال جنم لیتا ہے ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟
اس فیصلے کی رو سے ، اب سے چيف جسٹس فیصل آباد (لائل پور) کے گھنٹہ گھر کی مانند ہوں گے۔ چيف جسٹس آف پاکستان کو آرٹیکل(3) 184 کے حوالے سے تمام اختیارات کا منبع و سرچشمہ قرار دیا گیا ہے ۔ بَاَلْفاظِ دِیگَر ، وه مُطْلَقُ الْعِنان ہیں. اس شارٹ آرڈر کے پاس کرنے میں جو محرکات کار فرما تھے ، وه سب کو معلوم ہیں ۔ آرٹیکل(3) 184 کو وہ الفاظ و معنی پہنا دیے گئے ہیں ، جو آئین سازوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں گے ۔ کیا یہ آرڈر آئین سے متصادم و مُتَجَاوِزْ تو نہیں ؟ قانونی حلقوں میں یہ بھی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا مستقبل میں آرڈر مذکور کی بنا پر آرٹیکل 6 کی کاروائی تو عمل میں نہیں لائی جائے گی ؟ کیا تمام برائیوں کی جڑ آرٹیکل(3) 184 تھا، جس کی روح قبض کرکے جسد خاکی تدفین کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے ؟ کیا یہ آرٹیکل چیف جسٹس کے ماتحت کردیا گیا ہے ؟ كيا بنیادی حقوق پر عملدرآمد عملی طور پر چيف صاحب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ؟
بنیادی حقوق ، جن کا ضامن آئین پاکستان ہے ، کو بیک جنبش قلم زندہ درگور کر دیا گیا ہے۔ بنیادی حقوق کسی بھی آئین میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ۔ ان کی عدم موجودگی میں آئین محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہو کر رہ جاتا ہے ، جسے کسی بھی وقت ردی کی ٹوکری میں باآسانی پھینکا جاسکتا ہے۔ کیا سابق آمر جرنیل مشرف کے نزدیک آئین کی یہی حیثیت نہیں تھی؟
موجوده چيف صاحب نے دور نیازی میں کتنی مرتبہ مذکوره آرٹیکل کے ذريعے بنیادی حقوق پر عملدرآمد کروایا ہے ؟ اگر تمام اختیارات کے مالک چيف جسٹس صاحب ہیں، اور سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار سماعت اب صرف ان ہی کے گرد طواف کرئے گا تو باقی جج صاحبان سپریم کورٹ میں بے دست و پا کیا کریں گے؟ کیا اس فیصلے سے بینچ کے تین ممبران ، جو مستقبل میں بطور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حلف اٹھائیں گے ، اپنے ہاتھ مضبوط نہیں کیے ؟
یہ اب تک کی آرٹیکل 184 (3) کی انتہائی مضحکہ خيز تشریح ہے، جس نے آئین کی تشریح کے تمام مسلمہ اصول و ضوابط کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ، نظریہ ضرورت میں ایک مرتبہ پھر نئی روح پھونک دی ہے ۔
اگر فاضل جج منیب اختر کے تحریر کردہ فیصلوں کا اس مختصر آرڈر سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ اپنے اسلوب و بيان سے انھیں کے قلم کا شاہکار معلوم ہوتا ہے ۔
کپتان کی سربراہی میں اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے ملک و قوم نے تبدیلی کی بہت سی منزلیں طے کر لیں ہیں. اجالوں سے اندھیروں تک کے اس سفر میں سپریم کورٹ کا تاریخی شارٹ آرڈر فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ جس سے مستقبل کے طالع آزما رہنمائی پایا کریں گے ۔ تاریخ کی کتابوں میں جسٹس عمر عطا بندیال منیر ثانی کے نام سے یاد کیے جائیں گے ، جنہوں نے آئین کو صحیح تناظر میں پڑھا ، سمجھا اور تشریح کی ۔
مضمون نگار شعبہ وکالت سے وابستہ ہیں اور انگریزی اخبارات کے کالم نگار ہیں۔ ان سے رابطہ ای ميل zaeem.bhatti89@gmail.com پر کیا جا سکتا ہے اور ٹوئٹر پر ان سے بات کرنے کے لئے ان کا ہینڈل ہے: @zaeem8825