جائنٹ ایکشن کمیٹی فارپیپلز رائٹس (JAC) عاصمہ جہانگیر کی فیورٹ تنظیم تھی۔ یہ مئی 2017 کے آخری دنوں کی بات ہے کہ اس تنظیم کا ایک ہنگامی اجلاس عاصمہ جہانگیر کے گلبرگ لاہور میں ان کے نئے آفس میں بلایا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگی حکومت این جی اوز کے پیچھے پڑی ہوئی تھی۔ دو سماجی تنظیموں پر پابندی لگانے کے احکامات کو عاصمہ جہانگیر کامیابی کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ سے واپس کرا چکی تھیں۔ اجلاس میں سماجی تنظیموں بارے بحث کے بعد عاصمہ نے کہا کہ ایک اور ایمرجنسی مسئلہ ہے اگر آپ اس کو سننا چاہیں اور اس میں مدد کرنا چاہیں تو اچھا ہے۔ سب نے فوری کہا کیوں نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: عاصمہ جہانگیر کی یادیں، قسط 8: جنوبی ایشیا میں امن کی ایک اور کوشش
'میری بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اس کا بیٹا چھین لیا گیا ہے'
عاصمہ جہانگیر نے اپنے دفتر میں موجود ایک چھوٹے قد کی بوڑھی عورت جس سے چلنا بھی مشکل تھا کو بلایا اور کہا اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟ سب آئے ہوئے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کو یہ مہارت حاصل تھی کہ وہ اپنے ساتھیوں کو پوری عزت دیتی تھیں۔ ان کی اہمیت کو اجاگر کرتی تھیں اور گروپ کی صورت میں کام کرنے کو ترجیح دیتی تھیں۔
"میری بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اس کا بیٹا چھین لیا گیا ہے، بیٹی کا کچھ معلوم نہیں کہ اس کو کب اور کس طرح قتل کیا گیا۔ وہ پاورفل شخصیت ہے۔"
ہم سب ہکہ بکہ رہ گئے، میں نے کہا کہ ماں جی پوری تفصیل بتائیں۔
'میری بیٹی تلی ہوئی تھی اس شخص سے شادی کے لئے'
اس عورت نے کہا کہ ہم لاہور کے رہنے والے ہیں۔ عام لوگ ہیں۔ میری بیٹی ایک ٹیچر تھی۔ پھر ایک وکیل صاحب نے اس کو اپنے دفتر میں رکھ لیا۔ وہ ساٹھ سال سے اوپرکے ہوں گے، شادی شدہ تھے، چند مہینوں میں اس نے میری بیٹی کو اپنی دوسری شادی کے لئے آمادہ کر لیا۔ میں نے اپنے بیٹے سمیت اس تجویز کی مخالفت کی، مگر بیٹی کو اس نے معلوم نہیں کیا پٹی پڑھائی تھی؟ وہ کہنے لگی مجھے وہ نیا گھر لے دیں گے، علیحدہ رکھیں گے، ماہانہ رقم دیں گے۔ پھر ان دونوں نے نکاح کر لیا۔ اور میری بیٹی تلی ہوئی تھی اس شخص سے شادی کے لئے، دونوں نے کچھ لوگوں کی موجودگی میں نکاح کر لیا۔ میری بیٹی کے ہاں اس وکیل سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس وکیل کی اپنی پہلی بیوی سے صرف لڑکیاں ہی تھیں۔ اب میری بیٹی نے اصرار کیا کہ اس کو علیحدہ گھر لے کر دیا جائے، جو وکیل صاحب نے بہ امر مجبوری لے دیا۔ تیس ہزار روپے مہینہ بھی لگا دیا۔ میری بیٹی کی فرمائشوں کو وکیل صاحب بلیک میلنگ سمجھنے لگے اور اسے ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنا لیا۔ ایک دفعہ مری میں اسے پہاڑ سے دھکا دیا اور اسے مرا سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے، مگر اس کی جان بچ گئی، اب میری بیٹی کا کوئی پتہ نہیں۔ مجھے شک ہے کہ بیٹا چھین کر اسے مار دیا گیا ہے۔
اپنے ہی حمایتی کے خلاف مقدمہ
ہم سب انتہائی حیرانی سے اس ماں کی کہانی سن رہے تھے۔ عاصمہ جی نے کہا، ایشو یہ ہے کہ یہ وکیل منتخب ممبر بار کونسل ہیں، ایک سینیئر وکیل ہیں، میں تو یہ ایشو اٹھانا چاہتی ہوں۔ ہائی کورٹ میں جا کر اس وکیل کے خلاف پٹیشن دائر کرنا چاہتی ہوں۔ ایک عورت کو مارا گیا ہے، بچہ غائب ہے۔ مجھے آپ سب کی مدد چاہیے۔
اس عورت کو باہر بھیج کر عاصمہ جی سے پوچھا کیا یہ عورت قابل اعتبار ہے، کیا اپنے بیان سے مکر تو نہیں جائے گی۔ عاصمہ جی نے کہا مجھے یقین ہے یہ ماں سچ بول رہی ہے، پھر دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔
اس عورت کے پاس نہ تو بیٹی کا شناختی کارڈ تھا اور نہ ہی نکاح نامہ، پھر بھی عاصمہ جی نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی۔ اپنے ہی ایک کولیگ کے خلاف؛ اور وہ بھی کسی موقع پرستی کا اظہار کیے بغیر۔
وہ وکیلوں کے سب سے بڑے دھڑے کی رہنما تھیں۔ یہ وکیل صاحب بھی انہی کے دھڑے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس کا بھی خیال نہ کیا کہ اس ایکشن سے ووٹ ٹوٹیں گے، وہ تو ایک مظلوم عورت کی ہرصورت مدد کرنا چاہتی تھیں۔
ہائی کورٹ میں پہلی تاریخ پر میں بھی عدالت میں موجود تھا۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کئی دیگر ساتھیوں سمیت عاصمہ جی عدالت میں اس عورت سمیت پیش ہوئیں، اپنے چیمبر کی نور اعجاز، شبیر حسین، اسامہ ملک، میاں لیاقت اور دیگر کے ہمراہ، جج صاحب نے جواب طلبی نوٹس بھجوا دیے۔
میڈیا اس عورت کی مدد کرنے کی بجائے ملزم وکیل کے مؤقف کی حمایت کر رہا تھا
ہم اس عورت کو لے کر میڈیا کے سامنے پیش ہوئے۔ عاصمہ جی نے سختی سے کہا کہ میرے چیمبر کا کوئی وکیل میڈیا کے سامنے نہیں آئے گا۔ یہ عورت ہی بات کرے گی۔ اشاروں سے مجھے یہ کام کرنے کو کہا۔
میڈیا کے سامنے اس عورت نے اپنی داستان سنائی۔
اگلی تاریخ پر میں بیمار تھا، ساتھیوں کو عدالت پہنچنے کا کہا۔ رفعت مقصود اور دیگر عدالت میں موجود تھے۔ عدالت میں مخالف دھڑے نے کافی وکیل اکٹھے کیے ہوئے تھے۔ عاصمہ جی بھی موجود نہ تھیں۔ وہ برطانیہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے گئی ہوئی تھیں۔
عدالت کے اندر عاصمہ جی کے خلاف نعرے بازی شروع ہو گئی۔ شبیر، نور اعجاز اور مسعود ملک کو عدالت کے اندر گالیاں دی گئیں، دھکے دیے گئے، ان پر حملہ کیا گیا۔ جج صاحب اٹھ کر اپنے چیمبر کے اندر چلے گئے۔ عدالت کے باہر وکیلوں کی نعرے بازی جاری تھی۔ بعد میں جج صاحب نے عاصمہ جہانگیر چیمبرز کے نوجوان وکیلوں کو اپنے چیمبرز کے ذریعے محفوظ راستہ دیا تاکہ وہ باہر جا سکیں۔
یہ خبر اب پاکستان کی خبر تھی۔ میڈیا اس عورت کی مدد کرنے کی بجائے ملزم وکیل کے مؤقف کی کسی حد تک حمایت کر رہا تھا۔ عاصمہ جی کے خلاف وکیلوں کا ایک گروہ ہر قسم کی اول فول کہہ رہا تھا۔
ماں جی اپنے بیان سے مکر گئیں
مجھے ڈینگی نے گھیرا ہوا تھا۔ بہت زیادہ بیمار تھا، جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ کچھ زیادہ نہیں کر سکتا تھا۔ عاصمہ جی نے لندن سے واپسی پر رابطہ کیا۔ میری طبیعت کا حال چال پوچھا اور کہا آرام کرو میں ان کو بھگتتی ہوں۔ دوبارہ جیک کا اجلاس بلایا۔ سب کو موبلائز کیا۔ اور اگلی پیشی پر خود پیش ہوئیں۔ اس دوران عدالت میں سخت اقدامات کیے گئے، اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔
لیکن وہ ماں جی اپنے بیان سے مکر گئیں۔ ہمارا کیس کمزور ہو گیا۔ اور وہ خارج ہو گیا۔
عاصمہ جی کا فون آیا کہ مسئلہ ختم نہیں ہوا، عورت قتل ہوئی ہے، بچہ غائب ہے، ماں کمزور ہو گئی، بیان سے مکر گئی مگر عورت کو ڈھونڈنا ہے۔ تم تو بیمار ہو، ہم ایک اور پٹیشن کریں گے۔
اس دفعہ یوسف بلوچ مدعی بنے کیونکہ وہی یہ کیس عاصمہ جی کے پاس لے کر گئے تھے۔ وہ عاصمہ جی کے دفتر گئے تو عاصمہ جی نے باہر آ کر ان کا استقبال کیا۔ وہ خوش تھیں کہ یوسف بلوچ اب مدعی بنے گا۔
وہ اسی لئے تو عاصمہ جہانگیر تھیں کہ وہ ذاتیات سے بالاتر تھیں
عدالت میں پٹیشن دائر کر دی گئی۔ پہلی پیشی پر وکیلوں کا ایک ہجوم پھر موجود تھا۔ خوش قسمتی سے اس دن بھی کوئی جسمانی حملہ نہ ہوا۔ بلوچ صاحب کے ہمراہ ہمارے دیگر ٹریڈ یونین رہنما عدالت میں تھے۔ ان کی جس حد تک ممکن ہو حفاظت کے لئے۔
ہماری یہ پٹیشن بھی خارج کر دی گئی۔ مگر غائب عورت کا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا۔ عاصمہ جی اب سپریم کورٹ چلی گئیں اس فیصلے کے خلاف، وہ ہار ماننے والوں میں سے نہ تھیں۔
دیکھیں یہ کوئی ان کا ذاتی مقدمہ نہ تھا، وہ آسانی سے پہلی دفعہ پٹیشن خارج ہونے پر خاموش ہو سکتی تھیں۔ مگر وہ اسی لئے تو عاصمہ جہانگیر تھیں کہ وہ ذاتیات سے بالاتر تھیں۔ مظلوم طبقات کا ساتھ دینا ذاتی بات سمجھتی تھیں۔
پھر فون آیا کہ یوسف بلوچ صاحب کو اب اسلام آباد آنا ہے سپریم کورٹ میں پہلی پیشی پر۔ بلوچ صاحب کے ساتھ خبیب جام کو تیار کیا کہ وہ جائیں۔ دونوں ایک دن پہلے اسلام آباد گئے، اگلے روز وہ عدالت میں پہنچے، پیشی ہوئی، اور مقدمہ ابھی بھی چل رہا ہے، اس عورت کا کوئی اتا پتہ نہیں۔ مگر عاصمہ جی اس غائب عورت کو ڈھونڈتے خود ہی ہم سے جدا ہو گئیں۔