بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ایک اہم اور توجہ طلب مسئلہ ہے جسے ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے سے پہلے اس کی ممکنہ وجوہات کو تلاش کرنا اہم ہوتا ہے۔ پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات کی چند اہم وجوہات اور ان کے ممکنہ حل آج کی تحریر کا حصہ ہیں:
1- ماحول، معاشرہ اور شعور:۔
کسی بھی جاندار کی طبیعت، مزاج، کردار اور اوصاف پر اس کے ماحول اور معاشرہ کی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ جس طرح شیر کا بچہ روز اول سے ہی خونخوار نہیں ہوتا بالکل اسی طرح انسان بھی پیدائشی طور پر سلیم الفطرت اور معصوم ہوتا ہے۔ انسان خیر اور شر دونوں چیزیں اپنے معاشرے اور اردگرد کے ماحول سے سیکھتا ہے۔ انسان پیدائشی طور پر نیکوکار یا بدکار نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف ایک انسان ہوتا ہے، معاشرہ ہی اس کو اچھائی یا برائی کی جانب راغب کرتا ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں منفی سوچ اور منفی روایات فروغ پا رہی ہیں جن کو سیکھ کر ہمارے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم معاشرے سے منفی سوچ اور منفی رویوں کو ختم کیے بغیر اس برائی سے نہیں بچ سکتے۔
کسی برائی کو ختم کرنے سے پہلے اس برائی کے متعلق شعور اور اس سے آگہی کا ہونا ضروری ہے مگر ہمارے نوجوان میں شعور کی کمی ہے، جس کی وجہ سے ایک صحت مند اور باشعور معاشرہ تشکیل نہیں پا سکتا۔ ایسی معاشرتی برائیوں سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم مثبت روایات کا امین اور تہذیب و اخلاقیات کا پاسدار ایک صحت مند، مہذب، باشعور اور پڑھا لکھا معاشرہ تشکیل دیں جو مثبت سوچ کی حامل ایک ایسی نوجوان نسل تیار کرے جن میں ایسی خرافات بالکل موجود نہ ہوں۔
اس طرز کے صحت مند اور تہذیب یافتہ معاشرے کی تشکیل کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کے سامنے گندی اور فحش گفتگو سے پرہیز کریں۔ ان کے سامنے اخلاقیات سے گری ہوئی گفتگو نہ تو خود کریں اور نہ ہی کسی دوسرے کو کرنے دیں۔ ہم ان کے اندر مثبت سوچوں کو پروان چڑھائیں اور ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے انہیں معاشرے کا ایک باشعور شہری بننے میں مدد فراہم کریں۔
2- والدین اور بچوں کے تعلقات میں کھچاؤ:-
بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین اور بچوں کے تعلقات ہمیشہ کھچاؤ کا شکار رہتے ہیں۔ والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات میں اعتماد کی جگہ سختی اور ڈر پایا جاتا ہے۔ جس کے باعث نہ تو بچے کھل کر اپنے مسائل کا اظہار اپنے والدین سے کر سکتے ہیں اور نہ ہی والدین بچوں کو دوستانہ ماحول فراہم کرتے ہیں جس میں مسائل کو سن کر اس کا مؤثر حل نکالا جائے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے کہ میری نظر سے چند ایسے واقعات بھی گزرے ہیں جن میں بچوں نے جب والدین سے اپنے ساتھ ہونے والے ایسے سلوک کا تذکرہ کیا تو والدین نے ان کو اعتماد دینے اور ان کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے الٹا ان کو ڈانٹ دیا کہ وہ متعلقہ شخص پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ جب تک والدین ایسے مسائل پر اپنے بچوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان پر مؤثر انداز سے کوئی ایکشن نہیں لیں گے یا اپنے بچوں کی شکایات کو محبت سے دوستانہ ماحول میں سن کر ان کے مسائل اور شکایات کو دور کرنے کی مخلص کوشش نہیں کریں گے ہمارے معاشرے میں ایسے مسائل جنم لیتے رہیں گے۔
ایسے دلخراش واقعات سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ اعتماد کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات قائم کریں جس میں وہ بچوں کو ایسی پیش آنے والی اور دیگر تمام شکایات کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں اور جب بچوں کو ایسی صورتحال کا سامنا ہو تو وہ بچوں کو ڈرانے یا دھمکانے کے بجائے ان کے ساتھ بہتر اور مثبت رویہ رکھتے ہوئے ان کے مسائل کو حل کریں۔
3- غربت، بے روزگاری اور معاشی اضطراب:-
حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک مبارک حدیث کا مفہوم ہے کہ "قریب ہے کہ تمہاری غربت تمہیں کفر تک لے جائے"۔ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرتی خرافات کے پیش آنے میں ایک بڑی وجہ غربت اور بے روزگاری بھی ہے۔ میرے نزدیک ایسے واقعات کے بڑھنے کی ایک وجہ غربت، بے روزگاری اور معاشی اضطراب ہے کیوں کہ غربت کے باعث والدین اپنے بچوں کا پیٹ پالنے میں بے حد مصروف ہیں۔ ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچے کی حرکات پر توجہ دیں یا اس سے ملنے جلنے والے افراد پر نظر رکھیں۔
اب اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو بڑھتی ہوئی بے روزگاری نوجوانوں کو ٹینشن، ذہنی دباؤ، نفسیاتی مسائل، معاشی اضطراب اور محرومیاں دے رہی ہے۔ اور نوجوان ہیجانی کیفیت سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ فحش بینی، نشہ اور دیگر سماجی برائیوں کی نظر ہوجاتے ہیں۔ ایسے کام کرنے سے ان کے اندر منفی سوچوں کا رجحان بڑھتا ہے جو ان کو سماجی برائیوں مثلاً کرپشن بدعنوانی اور جنسی تشدد جیسے واقعات کی طرف ابھارتا ہے۔
ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ہنگامی بنیادوں پر اپنے معاشی مسائل کو حل کریں۔ اور نوجوان طبقہ کی کریئر کونسلنگ پر توجہ دی جائے تا کہ ہمارا نوجوان معاشی بدحالی کا شکار ہو کر سماجی خرافات کی نظر نہ ہو جائے۔
4- کمزور قوانین اور سماجی بے حسی :-
جنسی تشدد کے واقعات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کے قوانین کمزور ہیں۔ سیاسی دباؤ، اثر و رسوخ رشوت اور دیگر افعال کے ذریعے ہم انصاف کو مظلوم کی پہنچ سے دور کر دیتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اجتماعی سماجی بے حسی کا شکار ہے۔ کیونکہ ہمیں صرف اپنا ہی درد محسوس ہوتا ہے دوسرے کے درد کو محسوس کرنے کا جذبہ ہم میں کم ہوچکا ہے۔ ہم دوسروں کی تکلیف کو محسوس کر کے اس کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے اپنے اوپر اس مصیبت کے نازل ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔
ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم معاشرے میں احساس ذمہ داری، باہمی اخوت اور ایثار کا جذبہ پیدا کریں تاکہ ہم دوسروں کے ساتھ پیش آنے والے مسائل پر ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔
ہمیں اپنے عدالتی نظام کو بھی بہتر بنانا ہوگا اور ہمارے پولیس اور تھانہ کلچر کو بھی ہمیں ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ ایسے واقعات کے رونما ہونے پر ملزمان کو فورا پکڑا جائے اور مناسب سزا دی جائے تاکہ معاشرے میں برائیوں کے خاتمے کے عمل کو یقینی بنایا جا سکے۔
5- علاقائی تہذیب و ثقافت سے انحراف :-
مثل مشہور ہے کہ "جیسا دیس ویسا بھیس"۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارا لباس اور ہمارا طرز زندگی ویسا ہونا چاہیے جیسا اس معاشرے اور کمیونٹی کے باقی تمام لوگوں کا ہے جس میں ہم رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں مغربی طرز زندگی پر کاربند ہونا اور مغربی لباس زیب تن کر کے مکمل طور پر معمول کے مطابق زندگی گزارنا مشکل کام ہے۔ مغربی طرز کا لباس زیب تن کر کے جب بچے اور بچیاں باہر نکلتے ہیں تو خون سونگھنے والے ان درندوں کی نگاہیں ان بچوں کا تعاقب کرتی ہیں جو موقعہ ملتے ہی اپنی تسکین کا سامان پیدا کرلیتی ہیں۔
ایسے واقعات کو مناسب انداز سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں اور بالخصوص بچیوں کو ایشیائی طرز کا لباس پہنائیں جو ہماری روایات اور ہمارے اردگرد کے ماحول کے متصادم نہ ہو۔
6- ریاستی اداروں کا کردار:-
مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا کسی بھی ریاست کے چار اہم ادارے ہوتے ہیں۔ ان اداروں کا کردار کلیدی ہوتا ہے اور یہ ادارے لوگوں کے مسائل کے حل کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بےشمار واقعات کے ہو جانے کے بعد بھی ریاستی اداروں نے اس مسئلہ کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں بچوں کیساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ
میری اب ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ "بچے محفوظ مستقبل محفوظ" کے اصول پر عمل پیرا ہو کر مقننہ، عدلیہ اور میڈیا میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ قانون سازی کے عمل کو یقینی بنائیں تاکہ مجرموں کے لیے مؤثر سزاؤں اور قانونی حدود و قیود کا تعین کرتے ہوئے ان واقعات کو روکا جا سکے۔ بحیثیت پاکستانی میری اپنی قوم سے بھی گزارش ہے کہ ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ اگر ہم نے یوں ہی بے حسی دکھائی تو کل کو یہ آگ پھیل کر ہمارے گھر تک پہنچ جائے گی اور پھر ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
لہذا ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں آج ہی اس برائی کو روکنا ہوگا تاکہ ہمارا مستقبل محفوظ ہو۔ اللہ پاک پاکستان کے ہر بچے کو محفوظ مستقبل عطا فرمائے اور اسے اس ملک کا وفادار اور باعزت شہری بنائے۔ آمین