’دو ٹکے کے لکھاری‘ خلیل الرحمان قمر کو مناظرے کا چیلنج

’دو ٹکے کے لکھاری‘ خلیل الرحمان قمر کو مناظرے کا چیلنج
ایک مخصوص طبقہ عورت مارچ کو عالمی سازش قرار دے رہا ہے۔ جو شخص اس مارچ کی حمایت کرتا ہے, ایک مخصوص طبقے کی جانب سے اس کی ماں، بہن اور بیٹیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے جیسے کہ مارچ میں شریک ہونے والی خواتین کا مقصد فحاشی پھیلانا ہے۔ ہمیں اس نعرے کا مطلب سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ نعرہ کیوں لگایا جا رہا ہے۔

جن لوگوں کو اس نعرے پر اعتراض ہے میں انہیں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ خواتین کو یقین دلا دیں کہ اب کسی خاتون کے چہرے پر تیزاب نہیں پھینکا جائے گا اور کسی خاتون کو جسمانی تشدد کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تو عورت مارچ کی شرکا یہ نعرہ نہیں لگائیں گی۔

میں خود کو ایک معمولی سا لکھاری سمجھتا ہوں مگر میں دو ٹکے کے لکھاری خلیل الرحمIن قمر کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر ہمت ہے تو وہ عورت مارچ کے حوالے سے مجھ سے مناظرہ کریں۔ اس شخص نے ماروی سرمد کے لئے جو الفاظ استعمال کیے، اس سے ماروی سرمد کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ اس دو ٹکے کے لکھاری کی ذہنیت کھل کر سامنے آ گئی۔



ہمارے معاشرے میں برا صرف عورت کو کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی عورت غلط کام کرے تو بد کردار کہلاتی ہے مگر مرد کو غلط کام کرنے پر بھی بد کردار نہیں کہا جاتا۔ میں ایک فیملی کو جانتا ہوں جن کی بیٹی کو اس کے شوہر نے زندہ جلا دیا اور وہ خاتون تڑپ تڑپ کر اسپتال میں دم توڑ گئی۔ متاثرہ خاتون نے اپنی بہن سے کہا کہ وہ اپنے شوہر کو کبھی معاف نہیں کرے گی مگر اس کی فیملی نے پیسے لے کر اس کے شوہر کو معاف کر دیا۔

میری نظر میں اس مقتول لڑکی کے والدین اور بہن بھائی بھی برابر کے مجرم ہیں جنہوں نے اس کے شوہر کو معاف کیا۔ ہمیں ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے واقعات میں اگر ورثا مجرم کو معاف بھی کر دیں تو ریاست مجرموں کو سزا دلائے۔

کراچی میں راحیلہ رحیم پر 2015 میں رشتے سے انکار پر تیزاب پھینکا گیا۔ آج تک وہ لڑکی انصاف کے حصول کے لئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے مگر اب تک انصاف حاصل کرنے میں ناکام ہے۔

جو خواتین تیزاب گردی کا شکار ہوتی ہیں، جن کے جسم اور چہروں کو ظالم مرد تیزاب سے جلا دیتے ہیں، کیا ان کا حق نہیں کہ وہ یہ نعرہ لگائیں کہ ’میرا جسم میری مرضی‘؟

میرے گاؤں میں میرے رشتے دار کی موت کے بعد جائیداد کا بٹوارہ ہوا تو جائیداد تین بیٹوں میں تقسیم کر دی گئی اور دو بہنوں کو شرعی حق تو دور 48 ایکڑ زمین میں سے ان کے مرحوم والد کی وصیت کے مطابق ایک ایک ایکڑ زمین تک نہیں دی گئی۔

یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ ملک بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ خواتین کو ان کے شرعی حق سے محروم رکھا جاتا ہے مگر یہاں شریعت کی بات کرنے والوں کی زبانیں خاموش ہو جاتی ہیں۔



ہمیں میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو بنیاد بنا کر عورت مارچ کی مخالفت کرنے کے بجائے یا اسے عالمی سازش قرار دینے کے بجائے ان کے جائز مطالبات کی حمایت کرنی چاہیے۔

امید ہے اس سال کچھ بینرز کو بنیاد بنا کر اس عورت مارچ کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والے افراد ان ہزاروں بینرز پر لکھے ہوئے مطالبات کی حمایت کریں گے جن کی حمایت وہ خود بھی کرتے ہیں۔ میں عورت مارچ کی مکمل حمایت کرتا ہوں کیونکہ میں کچھ خواتین، کچھ متنازع بینرز یا کسی نعرے کو بنیاد کر ان لاکھوں خواتین کی آواز کو دبانے کا حامی نہیں جن کی آواز کو ہمیشہ دبایا گیا اور انہیں ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا۔

مصنف صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ٹوئٹر پر @UmairSolangiPK کے نام سے لکھتے ہیں۔