”ہر ڈرامے میں عورت کو ہی کیوں قصور وار قرار دیا جاتا ہے“، نجی ٹی وی کے پروگرام میں خلیل الرحمان قمر آپے سے باہر ہو گئے

”ہر ڈرامے میں عورت کو ہی کیوں قصور وار قرار دیا جاتا ہے“، نجی ٹی وی کے پروگرام میں خلیل الرحمان قمر آپے سے باہر ہو گئے
معروف ڈرامہ نویس خلیل الرحمان قمر آج کل اپنے ڈرامہ ’ میرے پاس تم ہو‘ کے باعث موضوع بحث ہیں اور ان کے خیالات پر معاشرے کے کئی  طبقات نالاں ہیں اور ان کو  تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن خلیل الرحمان قمر اپنے نقطہ نظر کا بھرپور دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔

سماء ٹی وی کے پروگرام نیوز بیٹ کے میزبان بیرسٹر احتشام نے خلیل الرحمان قمر، طاہرہ عبداللہ اور اویس توحید کو مدعو کیا۔ پروگرام کے تینوں میزبانوں کے مابین گرما گرم بحث ہوئی اور کئی مواقع پر فریقین کے لہجے میں تلخی بھی نظر آئی۔

پروگرام کا موضوع تھا کہ ہر ڈرامے میں عورت کو ہی کیوں قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستانی ڈراموں میں عورتوں کو قصوروار ٹھہرانے کا ٹرینڈ کیوں ہے؟ سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ میری عزت مرد کے ہاتھ میں نہیں، کشکول لے کر مردوں سے حقوق مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جبکہ خلیل الرحمان قمر کا کہنا تھا کہ پلے کارڈ اٹھا کر جب آپ نکلتی ہیں مردوں کے حقوق میں سے حصہ مانگ رہی ہیں، جو آپ کو نہیں ملیں گے۔

https://twitter.com/SAMAATV/status/1219141725664489472?s=20

طاہرہ عبداللہ نے اپنی باری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم مغربی کلچر اور فضیلت کی باتیں سن سن کر پک گئے ہیں۔ خواتین سے باقاعدہ نفرت سکھائی جاتی ہے۔ انہیں کاروکاری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ خلیل الرحمان قمر نے اپنے ڈراموں میں عورت کے حیا کو لباس سے جوڑ دیا ہے جبکہ خلیل الرحمان قمر نے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کا بالکل قائل نہیں کہ عورت کی حیا کو محض لباس سے جوڑ دیا جائے۔ طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ عورت سے باقاعدہ نفرت سکھائی جاتی ہے انہیں کاروکاری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اویس توحید نے نقطہ اٹھایا کہ ڈراموں میں خواتین کو ہمیشہ مظلوم اور محتاج دکھایا جاتا ہے حالانکہ بڑے شہروں میں موجود خواتین کے ہاسٹلز اس بات کی گواہی ہے کہ چھوٹے شہروں کی خواتین بھی اب معاشی خود انحصاری کی جانب گامزن ہیں اور اپنے حقوق کا تحفظ کر رہی ہیں۔

خلیل الرحمان قمر نے کہا کہ اویس توحید نے میرے ڈرامے نہیں دیکھے۔ میں نے خواتین کو کسی طرح ڈکٹیٹ کیا اور نہ ہی خود انحصاری کی مخالفت کی ہے مگر ہم آزادی اور خودمختاری کے نام پر معاشرے کی جڑیں کھوکھلے نہیں کرسکتے۔ کچھ لوگ انگریزی کتابیں اور مغربی کلچر پڑھ کر اس کی روشنی میں سوچتے اور بات کرتے ہیں۔