12 ہزار انگریز افسروں نے 40 کروڑ ہندوستانیوں پر 100 سال حکومت کی تھی۔ ان انگریز افسروں نے برصغیر پر حکومت کرنے کے لیے نوکر شاہی کی بنیاد ڈالی، جسے انگریزی میں بیورو کریسی کہا جاتا ہے۔ درحقیقت، اصل حکمران اشرافیہ ہی ہیں جن کی طاقت کے بارے وزیراعظم عمران خان بھی بات کر چکے ہیں۔ نوکر شاہی ہی ملکی معاملات چلاتی ہے سیاست کار تو کٹھ پتلیاں ہوتے ہیں۔
آزادی سے قبل انگریز افسروں کو لاٹ صاحب کہا جاتا تھا اور یہ عوام کو اپنی رعایا سمجھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد گورے رنگ کے افسر چلے گئے۔ اس کی جگہ کالا افسر آگئے مگر مزاج اور تربیت ان کی گورے افسر جسی ہی تھی۔ یوں مسٹر براؤن نے ہم پر حکومت کرنی شروع کر دی جو آج تک جاری ہے۔ پنجاب کی نوکر شاہی بھی سادہ لوح وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو ماموں بنانے کا فن خوب جانتی ہے اور لاہور کے ماتھے کے جھومر لارنس گارڈن کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ انگریز سرکار نے لاہور کے وسط میں ایک طلسم ہوش ربا لارنس گارڈن بنایا تھا۔ 1857 کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی سے اقتدار تاج برطانیہ کے پاس چلا گیا۔ 1862 میں یہ رومانوی باغ بنایا گیا۔ اس باغ میں سو سال پرانے درخت اب بھی موجود ہیں۔ پی ایچ اے کے مطابق 2008 سے 2016 تک لاہور میں 75 فیصد سبزہ ختم کیا گیا، یہ میٹرو بس سروس اور اورنج لائن ٹرین کے منصوبے کا زمانہ تھا۔ اورنج لائن ٹرین اژدھے کے روپ میں آج بھی لاہور کی سٹرکوں پر لیٹی ہے، جس کو نہ ختم کیا جا سکتا ہے اور مکمل کرنے کے لیے جانے کتنے وسائل اور خرچ کرنے پڑیں گے۔ ان دونوں منصوبوں سے پہلے لاہور میں 12 ہزار ایکڑ سبزہ تھا جو اب 3 ہزار ایکڑ رہ گیا ہے۔ باغ جناح 177 ایکڑ زمین پر بنایا گیا تھا 14 ایکڑ زمین چڑیا گھر کو دے دی کچھ زمین شاہراہ وزیراعلیٰ آفس کو مل گئی۔ اب 141 ایکڑ زمین باغ جناح کے پاس ہے۔
پنجاب کی نوکر شاہی نے اس باغ کے اندر محکمہ زراعت اور پی ایچ اے کے دفاتر بنانے کی کوشش کی جو کامیاب نہیں ہوئی۔ اب ایک بار پھر باغ جناح کے اندر 150 فٹ لمبے اور 20 فٹ گہرے واٹر ٹینک کی تعمیر شروع کی جا چکی ہے۔ لاکھوں روپے کی مٹی بھی فروخت کی جا چکی ہے۔ اس واٹر ٹینک کے بنانے کا مقصد یہ ہے کہ باغ جناح سے ملحقہ آبادیوں کے سیوریج کا پانی جمع کیا جا سکے۔ سیوریج کے گندے پانی کی بدبو اس رومانوی باغ کی آب وہوا تباہ کر دے گی۔ ایک طرف تحریک انصاف کی حکومت بلین ٹری اور سرسبز شاداب پاکستان کے منصوبے بنا رہی ہے تو دوسری طرف نوکر شاہی پہلے سے آباد باغ کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔
سول سوسائٹی کے قمر زیدی اس منصوبے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر چکے ہیں مگر کرونا وائرس کے باعث عدالت عالیہ میں مقدمات کی سماعت برائے نام ہے۔ خدشہ یہ ہے جب تک کیسں کی سماعت شروع ہو گی تب تک زیر زمین واٹر ٹینک مکمل نہ ہو جائے۔ دوسری طرف پی ایچ اے اور باغ جناح کی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ زیر زمین واٹر ٹینک بنانے سے باغ کی آب و ہوا اور تاریخی حسن کبھی متاثر نہیں ہو گا۔ سیوریج کے پانی کی بدبو اندر ہی رہے گی، باہر نہیں آئے گی۔
سول سوسائٹی کے قمر زیدی اس دلیل کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پی ایچ اے اور باغ جناح کی انتظامیہ جھوٹ بول رہی ہے۔ باغ جناح اپنے اندر ایک تاریخی ورثہ لیے موجود ہے۔ گلستان فاطمہ جناح، گلشن ریسٹورنٹ، کرکٹ پویلین، لائبریری، پہاڑیاں، اوپن ائیر تھیٹر، پنجاب ہال اور قدیم پرسرار درخت جانے کتنے تاریخ کے قرطاس لیے کھڑے ہیں۔ اردو فکشن لکھنے والوں کو ہمیشہ اس باغ نے اپنی طرف مائل کیا ہے۔ بانو قدسیہ کے شہرہ آفاق ناول راجہ گدھ کے کردار آج بھی اس باغ میں گھوم رہے ہیں۔ رہائش احمد کے ناول شجر حیات کی کہانی اسی باغ سے شروع ہوتی ہے۔ راقم نے اپنے کئی افسانوں کے کرداروں کو اس باغ میں دیکھا ہے۔ اردو فکشن کے اوتار انتظار حسین اس باغ میں کوئیل کی کوک سنے آیا کرتے تھے۔ واٹر ٹینک کا منصوبہ چونکہ پنجاب حکومت کا ہے، اس لیے ہماری وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے درخواست ہے کہ وہ فوراً ایکشن لیں اور پنجاب کی شتر بے مہار نوکر شاہی سے رپورٹ طلب کریں۔ کس طرح ان کی حکومت کے سرسبز و شاداب پاکستان کے منصوبے کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔