پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی سکینڈل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، وفاقی کابینہ نے 5 ہزار ارب کے پاور سیکٹر سکینڈل کی رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے، انکوائری کمیشن کا قیام بھی 2 ماہ کیلئے مؤخر کرنے کی منظوری دے دی، رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ 2 ماہ بعد کیا جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں مختلف معاملات پر غور کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں آئی پی پیز کی رپورٹ پبلک اور انکوائری کمیشن قائم کرنے کے معاملے میں یہ پیشرفت سامنے آئی ہے کہ وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کا قیام 2 ماہ کیلئے مؤخر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسی طرح 5 ہزار ارب کے مالیاتی سکینڈل کی رپورٹ بھی پبلک کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ رپورٹ کو پبلک کرنے کے فیصلے پر 2 ماہ بعد مزید غور کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے لیے آئی پی پیز مالکان کے ساتھ جاری مذاکرات اور دوست ملک کی ناراضی کا سہارا لیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل کابینہ نے 21 اپریل کو انکوائری کمیشن قائم کرنے اور رپورٹ پبلک کرنے کی منظوری دی تھی۔
واضح رہے کہ آئی پی پیز پر 9 رکنی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بجلی بنانے والی کمپنیوں نے قومی خزانے کو 5 ہزار 823 ارب کا ٹیکہ لگایا۔
پاورسیکٹر کی انکوائری رپورٹ پر سینئر تجزیہ کار فرخ سلیم نے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ ٹیکہ کس کس نے لگایا۔ اس رپورٹ میں میاں منشا کا نشاط کمپنی کے حوالے سے 23 بار ذکر کیا گیا ہے، جس نے 9 ارب کا منافع کمایا۔ میاں بابر کی اورینٹ کمپنی ہے کا 22 بار ذکر کیا گیا ہے جس نے ایک ارب کا منافع کمایا۔
اس طرح جہانگیرترین کی جے ڈی ڈبلیو نے 2 ارب کا منافع کمایا۔ خسروبختیار کی کمپنی آر وائی کے نے ایک ارب منافع کمایا۔ شریف فیملی کی چنیوٹ کمپنی نے بھی ایک ارب منافع کمایا۔ یہ سارا ٹیکہ گٹھ جوڑ کی بنیاد پر لگایا گیا ہے، اس میں بزنس مین، سیاستدان اور بیوروکریٹ شامل ہیں۔