حال ہی میں عمران خان نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے پی ٹی آئی کے کارکنان سے کہا کہ وہ اسلام آباد میں دھرنے کی تیاری کریں کیونکہ وہ کسی وقت بھی دھرنے کی کال دے سکتے ہیں۔ اس سے پہلے عمران خان نے سال 2014ء میں اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا دیا تھا۔ اگر ہم 2014ء کے دھرنے اور 2022ء کے متوقع دھرنے کا موازنہ کریں تو ہمیں اس بار بہت سی چیزیں مختلف نظر آتی ہیں۔
پہلے یعنی 2014ء کے دھرنے کی صورتحال کچھ یوں تھی کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام عمران خان کے پسندیدہ امپائر تھے۔ یہ دونوں شخصیات اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ایک پیج پر نہیں تھیں اور نہ ہی نواز شریف ان کے ساتھ ایک پیج پر دکھائی دیتے تھے۔
سونے پے سہاگہ اس وقت ہوا جب بانی پاکستان عوامی تحریک طاہر القادری بھی عمران خان کے ساتھ دھرنا دے رہے تھے۔ نواز حکومت کے لیے یہ بڑی پریشان کن صورتحال تھی، جب امپائر دھرنے کی حمایت کر رہے تھے۔ اسی دوران دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) کا واقعہ پیش آیا اور بالاخر عمران خان کو اپنا دھرنا ختم کرنا پڑا۔
عمران خان کا 2014ء کے دھرنے میں یہ نعرہ تھا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی جس کی بدولت نواز شریف وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت عمران خان کا بنیادی بیانیہ 'عام انتخابات میں دھاندلی' تھا۔ ان دنوں دھاندلی پر مبنی بیانیہ ان کا بنیادی موقف تھا۔ نواز شریف کے لئے اس قسم کا دھرنا نیا تھا جہاں امپائر عمران خان کے ساتھ تھے اور عمران خان کو میڈیا کی بھی زبردست حمایت حاصل تھی اور نوجوان نیا پاکستان بنانے کے لیے بہت پرجوش تھے جو پوری مہم کا بظاہر حتمی مقصد تھا۔ حالانکہ بعد میں یہ صرف ایک خیالی نعرہ ثابت ہوا۔ اے پی ایس کے واقعہ اور پانامہ کے بعد نواز شریف سیاسی طور پرقدرے کمزور دکھائی دیے جس کی جھلک ان کے سیاسی اقدامات سے عیاں تھی۔
پانامہ کے بعد عمران خان نے دھاندلی زدہ الیکشن کے ساتھ ساتھ ایک نیا بیانیہ جوڑ دیا جو تھا 'کرپشن' کا بیانیہ۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نواز شریف کی نااہلی اور عمران خان کو صادق اور امین ٹھہرانا یقیناً مقتدر حلقوں کی جانب سے عام انتخابات 2018ء کے پلان کا واضح پیغام تھا۔
نواز شریف بیچارے 'مجھے کیوں نکالا' کا نعرہ لگا کر وزارت عظمیٰ سے رخصت ہوگئے۔ اس فیصلے سے عمران خان کو بڑا فائدہ ملا۔ اس طرح 2018ء کے الیکشن میں عمران خان امپائر کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
عمران خان نے اپنی حکومت کے پونے چار سال بدترین معاشی بحران کا ذمہ دار پچھلی حکومت کو ٹھہراتے ہوئے گزارے۔ وہ بار بار اس بیانے کو استمال کرتے تھے کہ ہمیں پچھلی حکومت سے مکمل طور پر تباہ معیشت ملی ہے۔ تقریباً ہر معاملے پر یہی جواب سننے کو ملتا تھا۔ اپریل 2022ء میں جب امپائر غیر جانبدار ہو گئے تو عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیا گیا جس پر عمران خان بیرونی سازش کا واویلا کرتے ہوئے اپنے کارکنان کو دھرنے کے لئے کال دے رہے ہیں۔
لیکن اس بار صورتحال بالکل مختلف ہے۔ اس بار امپائر غیر جانبدار ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ انہیں پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے نیوٹرل ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ شہباز حکومت کو متحدہ سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اب مسلم لیگ (نواز) جانتی ہے کہ اس دھرنے سے کیسے نمٹا جائے کیونکہ اب ان کے پاس سابقہ تجربہ موجود ہے۔ آخر میں اس بار عمران خان یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ کبھی حکومت میں نہیں رہے اور نہ ہی وہ کسی کرپشن میں ملوث ہیں کیونکہ ان کی حکومت کے بہت سا رے کرپشن کے سکینڈلز آنے والے ہیں۔ غیر ملکی فنڈنگ کیس تو بس ایک نمونہ ہے، ابھی آ گے دیکھیے ہوتا ہے کیا!