اسلام آباد پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر مسلح مظاہرین اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہوئے تھے۔
تفصیل کے مطابق عمران خان کی جانب سے عدالتی حکم کی خلاف وزری کرتے ہوئے ڈی چوک پہنچنے کے معاملے پر آئی جی اسلام آباد نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔
آئی جی اسلام آباد کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے 6:50 پر کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کا کہا، مظاہرین مسلح تھے اور مظاہرین کو قیادت کی جانب سے رکاوٹیں ہٹانے اور پولیس کے ساتھ مزاحمت کی ترغیب دی گئی تھی۔
آئی جی اسلام آباد نے رپورٹ کے ہمراہ زخمیوں اور گرفتار کئے گئے افراد کی فہرست، پی ٹی آئی کارکنان کی درختوں کو جلانے کی ویڈیو کلپس، عمران خان کے تقاریر کی ویڈیوز کلپ بھی رپورٹ کا حصہ بنایا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ورکرز کا احتجاج، اور ڈی چوک داخلوں سے متعلق ویڈیوز بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے اسلام آباد انتظامیہ کو 23 مئی کو سرینگر ہائی وے پر احتجاج کی درخوست دی۔ اسلام آباد انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر من وعن عمل کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحفظ کے لئے ریڈ زون جانے والے راستے بند کر دیے گئے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد پولیس، رینجرز اور ایف سی کو مظاہرین کے خلاف ایکشن سے روک دیا گیا۔ اس کے بعد مظاہرین کے گروپ ڈی چوک کی جانب جانا شروع ہو گئے۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین نے پولیس اور رینجرز پر پتھراؤ بھی کیا اور پولیس پر گاڑیاں بھی چڑھائیں جبکہ مظاہرین کی جانب سے کنٹینرز ہٹانے کے لیے بھاری مشینری کا استعمال بھی کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین کی جانب سے درختوں کو جلایا گیا۔ عمران اسماعیل، سیف اللہ نیازی، زرتاج گل اور دیگر کی قیادت میں دو ہزار مظاہرین رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہوئے اور مظاہرین کو ہٹانے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین پارٹی قیادت کے تحت منظم انداز میں ریڈ زون میں داخل ہوئے۔ ڈی چوک پہنچنے کے لیے فواد چوہدری، سیف اللہ نیازی اور زرتاج گل نے کارکنان کو ریڈ زون پہنچنے کیلئے اکسایا۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا بیانات میں کارکنوں کو عمران خان کے استقبال کے لیے ریڈ زون پہنچنے کا کہا گیا۔ انتظامیہ کی جانب سے سوشل میڈیا اور میڈیا پر اعلانات کیے گئے کے مظاہرین ریڈ زون سے دور رہیں جبکہ مظاہرین کی جانب سے ریڈ زون میں داخلے کی کوششوں کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کے باعث 23 سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال سے ہر حد تک گریز کیا گیا جبکہ خدشات بڑھنے پر آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا گیا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق 200 سے 300 مظاہرین کنٹینرز ہٹا کر ریڈ زون میں داخل ہوئے۔ مظاہرین ڈی چوک جانے والی رکاوٹوں کو عبور کرکے ریڈ زون داخل ہوئے۔ مظاہرین کو جی نائن اور ایچ نائن کے درمیان واقع جلسہ گاہ پہنچنے کے لیے کوئی رکاوٹ نہ تھی۔
پولیس رپورٹ کے مطابق مظاہرین میں سے کوئی بھی مختص کردہ جلسہ گاہ نہیں پہنچا۔ پولیس نے 77 لوگوں کو 19 مختلف مقدمات میں گرفتار کیا۔