سابق وزیراعظم عمران خان جو سیاست، آئین اور قانون کے ساتھ کر رہا ہے، کیا یہ اقتدار کھونے کا ہیجان ہے؟ یا اب تک کچھ طاقتور ہاتھ اس کی پشت پر ہیں؟ یا پھر کوئی ان کو وہاں تک پہنچانا چاہتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔
پی ٹی آئی یا بالفاظ دیگر عمران خان کی سیاست شروع دن سے ایک منفی رجحان اور ذہنیت پر مبنی ہے۔ اس نے اپنی سیاست کی بنیاد بجائے مثبت، قابل عمل سیاسی ومعاشی پروگرام پیش کرنے کے منفی رجحانات خصوصاً نفرت، اشتعال انگیزی، احتساب اور شفافیت کے نام پر انتقام پر رکھی ہے۔
اس نے گذشتہ دس سالوں میں پرانا نظام بدلنے کے نام پر اس کو مزید تقویت دی اور تبدیلی کے نام پر سیاست کے مثبت رجحانات اور تبدیلی کے ارتقائی عمل جوکہ مشکل سے شروع ہوا تھا، اسٹیٹس کو کے اصل نقاب پوش قوتوں کا مہرہ بن کر پیچھے کی طرف مڑنا شروع کیا لیکن اس کو نام تبدیلی کا دیا۔ اس مقصد کیلئے ان کو کھلا اور صاف میدان فراہم کیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ سیاست اور حکمرانی میں بری طرح ناکام ہوا۔
مگر اس کے نتیجہ میں جو منفی ذہنیت اور سیاسی آلودگی پیدا کی گئی، وہ اب ریاست وسیاست کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے اب ایک پارٹی یا تنظیم کے بجائے ایک جھتے کا روپ دھار لیا ہے اور گوریلا سیاست شروع کر دی ہے۔ اب اس نے یہ روش اپنائی ہے کہ جہاں پر سیاسی مخالف یا مخالفین کو سیاست کے میدان سے ہٹ کر نجی، سماجی یا مذہبی سرگرمی میں حصہ لینے کا یا موجودگی کا امکان ہو، وہاں اپنے جھتے بھیج کر اس پر حملہ آور ہوا جائے۔
اب تک تو ہم نے یہ مناظر ریسٹورنٹس اور دیگر سماجی میل جول کے وقت دیکھے تھے لیکن اس کا بدترین مظاہرہ پیچھلے دن مسجد نبوی ﷺ میں ہوا جہاں ان ناہنجاروں نے پوری دنیا کی سامنے اپنے فسطائیت کا تماشا لگایا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں آواز بلند کرنا بھی بے ادبی شمار ہوتی ہے لیکن ان بدقسمتوں نے منصوبہ بندی کی تحت وہ گھناؤنا حرکت کی جس نے ناصرف مسلم امہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچی بلکہ ریاست اور اس کے شہریوں کی بدنامی کا بھی باعث بھی بنا۔
مکرر عرض کہ پی ٹی آئی اب عملاً کسی تنظیمی اصولوں کے تحت چلنی والی سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ڈان کے سرپرستی میں ہجوم یا جھتے کا شکل اختیار کر گئی ہے۔ اور ہجوم یا جھتہ کے بارے میں افلاطون نے صدیوں پہلے بتایا تھا کہ یہ عقل سے عاری اور سفاک ہوتے ہیں۔ یہاں تو ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ عمرانی ہجوم یا جھتے کی پوری ذہن سازی نفرت اور اندھی تقلید کے بنیاد پر ہوئی ہے۔ ان کا پورا بیانیہ عمران خان کے علاوہ ہر سیاسی پارٹی، سیاستدان کرپٹ اور ملک وعوام کی معاشی بد حالی کے ذمہ دار ہے پر کھڑا ہے۔
ان کو 22 سالہ خود ساختہ جدوجہد میں یہ جرات کبھی نہیں ہوئی کہ ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر اس نہج پر پہنچانے والے گریژن ریاست کے معماروں کا نام بھی لے، بلکہ ان میں سے چند افراد عمران خان کو اپنا ہیرو اور قابل تقلید سمجھتے ہیں جس نے پاکستان کو ایک جمہوری فلاحی ریاست بننے کے راستے سے ہٹائی۔
ان کو یہ بتانے کی توفیق کبھی نہیں ہوئی کہ سیاست کی جڑوں میں کرپشن یا بدعنوانی کا زہر کس نے گھولا اور پھر اس کا الزام سیاست اور سیاستدانوں کے گلے میں ڈال دیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا سے پہلے پاکستان کی سیاست میں کرپشن کا تناسب کیا تھا اور ان کے بعد سیاسی انجینئرنگ کے نتیجہ میں سیاست کس حد تک کرپشن آلودہ کرکے بدنام کی گئی۔ لیکن عین غیر جمہوری طاقتوں کے روش پر چلتے ہوئے عمران خان نے کرپشن کا الزام چند سیاستدانوں پر ڈال دیا اور ان کو اپنے نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیانیہ کا نشانہ بنایا۔
اگر 1990ء کی دہائی میں نواز شریف 'ڈیکٹیشن نہیں لونگا' والی تقریر نہ کرتا، بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں آصف زرداری اور ان کے اتحادی اٹھارویں آئینی ترمیم پاس کرنے پر بضد نہ ہوتے، اس کے بعد اگر نواز شریف اس کو برقرار رکھنے اور ایک ادارے کو منہ مانگا بجٹ دینے سے انکار نہ کرتا، تو اول نہ تحریک انصاف بنتی اور نہ بعد میں دھرنے ہوتے اور نہ اس کے نتیجہ میں عمران خان وزیراعظم بنتا۔
عمران خان نے اداروں کے خلاف بلاواسطہ مہم جوئی تب شروع کی جب ان کے ہاتھ سے حکومت چلی گئی لیکن ان اداروں کی سیاست میں مداخلت کے بارے میں عمران ایک لفظ بھی نہیں بولتا کیونکہ اس مداخلت کے نتیجہ میں تو وہ حکومت میں آیا تھا، اب ان کا اعتراض ان کے حق میں مداخلت جاری نہ رکھنے پر ہے۔
عمران خان مشہور ضرور ہے لیکن حقیقت میں ایک مقبول سیاسی لیڈر کے پیمانہ پر نہیں اترتا۔ اگر مقبول ہوتا تو ان کو ایمپائر کی انگلی کی ضرورت نہ ہوتی۔ خیر مشہور تو کسی زمانہ میں صوفی محمد اور فضل اللہ بھی تھے۔ انہوں نے بھی کچھ علاقوں میں نادیدہ ہاتھوں کے بل بوتے پر لوگوں کو بے وقوف بنایا۔ دیکھا دیکھی صوفی محمد اور بعد میں فضل اللہ عقل کل بن کر ولایت کے رتبے پر پہنچا دیے گئے۔ ان کے حواری بھی کوئی دلیل، منطق و تنقید سننے کے روادار نہیں تھے۔ انہوں نے بھی لوگوں کے مذہبی جذبات اور محرومیوں سے کھیل کر ان کی جنونیت کو اعلیٰ درجے پر پہنچایا۔ ان کے سامنے ریاست کی بے بسی دیکھ کر ان کے چیلے اور بے لگام ہو گئے۔ ہر وہ آواز اور نقطہ نظر جو ان کے حق میں نہ تھا وہ قابل گردن زنی ٹھہرا۔ انہوں نے پی پی پی کے ایم پی اے بدر الزماں کو دن ددہاڑے قتل کر دیا۔ اس کے علاوہ جو تباہی ہوئی وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔
اب صرف ظاہری شکل اور بودوباش کا فرق ہو سکتا ہے لیکن بنیادی ذہنیت وہی جو اب عمران خان کے ووٹرز اور سپورٹرز بن گئے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ محرومی ختم کرنا اور خواہشات پوری کرنا مشکل ہے لیکن اس کو مذموم مقاصد کیلئے ابھارنا بہت آسان کام ہے۔
عمران خان نے طاقتور ہاتھوں کی مدد سے ان سیاستدانوں، خصوصاً دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو جس کو اسٹیبلیشمنٹ یا تو ختم کرنا یا بے انتہا کمزور کرکے پھر سے اپنے پیروں میں لانا چاہتی تھا، کو اپنی نفرت اور اشتعال انگیز بیانیہ کا نشانہ بنایا۔ مین سٹریم اور سوشل میڈیا کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچایا۔ اب تک عمران خان اس کوشش میں لگا ہے کہ عام لوگوں کو یہ باور کرائے کہ ان کی تمام محرومیوں اور مشکلوں کے ذمہ دار یہی چند سیاستدان ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کی کمزوریاں ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے عمران خان کی کمزوریاں ان سیاستدانوں سے کئی گنا زیادہ تھیں۔ سیاسی پارٹیوں کو کمزور رکھنا، اس کو تقسیم در تقسیم کرنا، جمہوری سیاسی عمل کا ارتقا کو روکنا کس کی کارستانی ہے؟
ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان کو ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے اور دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، سوائے کرسی تک پہنچنے میں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آج کل عمران خان جو سیاست، آئین اور قانون کے ساتھ کر رہا ہے، کیا یہ ان کا اقتدار کھونے کا ہیجان ہے، یا اب تک کچھ طاقتور ہاتھ اس کی پشت پر ہیں یا پھر کوئی ان کو وہاں تک پہنچانا چاہتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو؟
ٹیگز: establishment, Imran Khan, Long March, pakistan, Politics, PTI, اسٹیبلشمنٹ, پاکستان, پاکستانی سیاست, شہباز شریف, عمران خان