تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بدھ کی صبح ایک کھلا خط جاری کیا گیا جس میں حکمران اتحاد کی دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا نام لکھ کر انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر انہوں نے طالبان کے خلاف اپنا 'سخت مؤقف' ترک نہ کیا تو انہیں خطرناک نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اس طرح کا کوئی بھی خط یا مراسلہ جب سامنے آتا ہے تو دماغ میں پہلا سوال یہی ابھرتا ہے کہ آیا یہ درست بھی ہے یا نہیں۔ اسی لئے سب سے پہلے اس خط کی تصدیق کے لئے افغانستان میں ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو وہاں سے بتایا گیا کہ یہ خط ترجمان تحریکِ طالبان پاکستان محمد خراسانی نے تنظیم کے لیٹرہیڈ پر لکھ کر خود جاری کیا ہے۔
اس خط میں براہِ راست پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ رابطہ کرنے پر پیپلز پارٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ وہ سب سے پہلے تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ کہیں یہ دھمکی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بھارت اور نریندر مودی کے خلاف بات کرنے اور دہشتگردی میں بھارتی کردار اجاگر کرنے کا نتیجہ تو نہیں۔
ذرائع نے تصدیق کی کہ جمعرات کو پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوگا اور اس کے ایجنڈے پر تحریکِ طالبان پاکستان کی دھمکی سرِ فہرست ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی ایک حقیقت ہے اور پیپلز پارٹی نے اس میں اپنی لیڈر بینظیر بھٹو شہید کو کھویا ہے۔ تاہم، اس اجلاس میں مزید معاملات بھی زیرِ غور آئیں گے۔ پارٹی کا طالبان پر مؤقف دو ٹوک ہے، ہم 'اچھے طالبان اور برے طالبان' کے بیانیے میں یقین نہیں رکھتے۔
البتہ پارٹی ذرائع نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں بڑھتی دہشتگردی اور لاقانونیت کا ذمہ دار پی ٹی آئی اور براہِ راست عمران خان کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اپنے ہی وزیرِ داخلہ سوات میں اپنے ہی ذاتی گھر نہیں جا سکتے کیونکہ انہیں بھی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔
ن لیگ اب بھی تذبذب کا شکار
دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے لیکن جو دہشتگرد ہتھیار ڈال دیں، ان سے بات ہو سکتی ہے۔ مبصرین کے مطابق رانا ثنااللہ کا یہ بیان حکومت کی اپنی گومگو کی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ بیان مشروط ہی سہی لیکن مذاکرات کی پیشکش کے طور پر دیکھا جائے گا۔
ماضی میں بینظیر بھٹو کی شہادت اور تحریکِ طالبان پاکستان کے درمیان ایک گہرا تعلق رہا ہے کیونکہ اس قتل کی ذمہ داری بھی TTP کے محسود گروپ نے قبول کی تھی۔ اس وقت اس تنظیم کے سربراہ بیت اللہ محسود تھے۔ اب بھی اس تنظیم کی امارت مختلف لوگوں سے ہوتی ہوئی واپس ایک محسود رہنما نور ولی محسود کے ہاتھ آ چکی ہے۔ یہ تنظیم اس سے پہلے بھی سیاسی مقاصد کی خاطر سیاسی رہنماؤں کو قتل کر چکی ہے جن میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما شامل ہیں۔
تاہم، سیاسی جماعتوں کی جانب سے پاکستانی طالبان کے حوالے سے پالیسی اکثر کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے موجودہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا 2009 کا بیان سب سے بڑی مثال ہے کہ جب انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے طالبان سے گذارش کی تھی کہ مسلم لیگ ن اور پاکستانی طالبان دونوں ہی افغانستان میں امریکی مداخلت کے خلاف ہیں لہٰذا طالبان پنجاب میں کارروائیاں نہ کریں۔
اور پھر اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے وقت تو حکمرانوں کی خوشی دیدنی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک تقریب سے خطاب کوتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے لوگوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں۔ وہ ماضی میں اسامہ بن لادن کو بھی شہید قرار دے چکے ہیں اور افغان ٹیلی وژن چینل 'طلوع' سے بات کرتے ہوئے اس وقت کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اسامہ بن لادن کو دہشتگرد قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جب کہ موجودہ وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے طالبان کے اقتدار پر قبضے کے موقع پر امریکہ کو نشانہ بناتے ہوئے ایک ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ 'طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے'۔
اسی نظریاتی تذبذب کا نتیجہ تھا کہ اس وقت کی حکومت نے فوری طور پر پاکستانی طالبان سے بھی مذاکرات شروع کر دیے۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کابل میں طالبان کے آپسی جھگڑے بھی سلجھاتے نظر آئے اور پاکستان میں وہ پاکستانی طالبان سے مذاکرات بھی کرتے رہے۔ انہیں اس عہدے سے برطرف کیا گیا تو کور کمانڈر پشاور لگا دیا گیا تاکہ وہ اسی پالیسی پر کاربند رہیں اور عملدرآمد جاری رکھیں۔
حکومت کی تبدیلی کے بعد جنرل فیض کو تو کور کمانڈر پشاور کے عہدے سے ہٹا دیا گیا لیکن مذاکرات جاری رہے۔ اب البتہ یہ واضح ہے کہ یہ مذاکرات ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ناکام ہو چکے ہیں۔
خط کے آنے والے الیکشن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
بلاول بھٹو زرداری کو نشانہ بنانے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی خاص طور پر غور کر رہی ہے۔ بلاول نے گذشتہ روز دادو میں بھی خطاب کرتے ہوئے پاکستانی طالبان کو ایک فتنہ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ افغان طالبان ایک زمینی حقیقت ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سانحۂ APS میں ملوث لوگوں کی رہائی ایک بیوقوفانہ عمل تھا۔ انہوں نے احسان اللہ احسان کو APS پشاور سانحے کے ذمہ داران میں سے ہونے کے باوجود ایک خاص قسم کا پروٹوکول دیے جانے پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دہشتگردی سے پاک کیا جا چکا تھا لیکن 'جنگ جیتنے کے بعد ایسے بیوقوفانہ فیصلے کون کرتا ہے؟'
سینیئر سکیورٹی ذرائع کا نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستانی طالبان کا یہ خط واضح طور پر پاکستان تحریکِ انصاف اور مذہبی جماعتوں کی حمایت میں لکھا گیا ہے اور اس میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ واضح طور پر اپنا نشانہ قرار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یاد نہیں پڑتا کہ ماضی میں طالبان کی جانب سے ایسا خط کبھی دیکھا ہو۔
' پاکستانی طالبان کے مطابق سوسائٹی میں دو گروہ ہیں؛ PTI اور اس کے مخالفین'
ایک سابق سینیئر فوجی افسر اور دفاعی ماہر کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی ترجمان نے خط اپنی یہ نیت اور مقصد واضح کرنے کے لئے لکھا ہے کہ ان کی تنظیم کے نزدیک پاکستانی معاشرے میں دو گروہ ہیں۔
"پہلے گروپ میں اسٹیبلشمنٹ اور حکمران جماعتیں ہیں جو ان کے نزدیک (میں ان کو درست نہیں کہہ رہا) امریکہ کے ساتھ ہیں اور یہ ملک اور اسلام کے خلاف جا رہے ہیں۔ دوسرے گروپ میں ان کے نزدیک PTI اور اس کے اتحادی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ طالبان اپنی دہشتگردی کا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ملک کے سیاسی حالات پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں اور انہوں نے ملک میں موجود سیاسی کشمکش میں اب ایک حلیف چن لیا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک نیا رجحان ہے اور ماضی میں دہشتگردوں کی جانب سے ایسی سیاسی انجینیئرنگ کی مثال نہیں ملتی۔