Get Alerts

پاکستان تماشا آئیڈل (PTI)؛ قالین خان اور پاٹے خان کی سو جوتوں سو پیازوں پر مبنی کھڑکی توڑ پرفارمنس

پاکستان تماشا آئیڈل (PTI)؛ قالین خان اور پاٹے خان کی سو جوتوں سو پیازوں پر مبنی کھڑکی توڑ پرفارمنس
پہلا منظر:
مری روڈ۔ ٹریفک کا ہجوم۔ فٹ پاتھ پر ایک خان قالین بیچ رہا ہے۔ قلندر ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا اشارہ کرتا ہے۔ کانوائے روڈ کے ایک جانب رک جاتا ہے۔ قلندر گاڑی سے اترتا ہے۔ قالین والے کی طرف بڑھتا ہے۔

'خان صاحب یہ قالین کتنے کا ہے؟'
'لینا ہے؟'
'بالکل لینا ہے!'
'ایک بات کروں؟'
'ابے کر نا! پہلیاں کیوں بجھوا رہا ہے؟' قلندر کہتا ہے اپنے مخصوص لہجے میں۔
'دس لاکھ روپے تیرے لئے؟'
قلندر ایک فلک شگاف قہقہہ بلند کرتا ہے۔ پھر کہتا ہے۔ 'ابے چوّلیں نہ مار!'

دوسرا منظر:
پاٹے خان جنت کو کافی حد تک پولیوٹ pollute کر چکا ہے۔ مزید آلودگی کی گنجائش نئیں بچی۔ اسے لانے والے پچھتا رہے ہیں۔ فیصلہ کیا جاتا ہے اسے نکال دیا جائے۔ پاٹے عرش سے فرش پر پہنچتے ہی قوم سے خطاب کرنے لگ جاتا ہے۔ نشر صرف وہ یو ٹیوبیے کر رہے ہیں جو ہر لمحے اس کے پیروں میں ڈبو بھائی کی طرح لوٹتے رہتے ہیں۔ ایسے چینل پر تو گونگا بھی 'بول' سکتا ہے۔ پاٹے کوئی گنجا فرشتہ نہیں کہ نکالے جانے کے بعد ہر خاص و عام کا دماغ چاٹے کہ مجھے کیوں نکالا! وہ تو سیدھی سیدھی تڑیاں لگا رہا ہے:

1۔ مجھے فوراً وزیر اعظم بناؤ اور وہ بھی دو تہائی مجمعے کیساتھ۔
2۔ باجوے کو نکالنا ہے یا رکھنا ہے یا نواں بندہ بھرتی کرنا ہے، یہ حق صرف میرا ہے۔
3۔ باجوے کو ایکس ٹینشن ہرگز نہیں دینی۔ اسے فوراً نکالو اور ابھی الیکشن کراؤ۔ میں ہی جیتوں گا اور نیا بندہ بھرتی کروں گا۔
4۔ فیضو کو ڈی جی آئی ایس آئی بھرتی کرو۔
5۔ ڈرٹی ہیری اور اس کا باس جنرل ندیم انجم فوراً مستعفی ہوں۔ انہوں نے ہی اعظم سواتی اور شہباز گل سے بدسلوکی کی، بصورت دیگر میں اپنی 22 کروڑ پیادہ فوج کے ہمراہ ایک عدد آدھ فرلانگ لانگ مارچ رچا کر اسلام آباد اور جی ایچ کیو کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔
6۔ اگر یہ مطالبات 24 گھنٹوں میں پورے نہ کیے گئے تو میں دوسری پریس کانفرنس داغوں گا۔

ہر سننے دیکھنے والا فلک شگاف قہقہہ بلند کرتا ہے اور کہتا ہے: 'ابے چوّلیں نہ مار!'

تیسرا منظر:
قلندر واپس گاڑی کی جانب قدم بڑھا رہا ہے۔ قالین والا بھاگا بھاگا پیچھے آتا ہے۔

'تُو تو ناراض ہو گیا ماڑا۔ اچھا یہ بتا تُو نے خریدنا ہے؟'
'ابے کتنی بار کہوں کہ ہاں!'
'مردوں والا ایک بات کروں؟'
'ابے اگر مرد ہے تو کر۔ پوچھتا کیوں ہے؟' قلندر کہتا ہے۔
'اچھا، پانچ لاکھ، آخری۔ اس سے ایک پیسہ کم نہیں!'
قلندر پھر قہقہہ بلند کرتا ہے اور کہتا ہے: 'پاگل ای اوئے!'

چوتھا منظر:
پاٹے کا دوسرا خطاب چل رہا ہے۔۔۔

1۔ باجوے کو بھلے ایکس ٹینشن دے دو مگر الیکشن ابھی کراؤ۔ شوبز شریف نیا بندہ نہ لگائے۔
2۔ فوج جمہوریت کو سپورٹ کرے اور آج سے میرا نام جمہوریت خان ہے۔
3۔ میں انشاء اللہ اس صدی کے آخر سے پہلے پہلے لانگ مارچ شروع کر دوں گا۔ کارکن اس اثنا میں کھانے پینے کی اشیا اکٹھی کر لیں۔

سب قہقہہ بلند کرتے ہیں اور کہتے ہیں: 'پاگل ای اوئے!'

پانچواں منظر:
قالین والا گاہک کھونا نہیں چاہتا۔ 'کچھ لو کچھ دو' کی بنیاد پر این آر او کی کوشش کرتا ہے۔

'یارا تُو بہت جلدی ناراض ہو جاتا ہے۔ نسوار ڈالے گا؟'
'ابے میں نسوار نہیں کچھ اور ڈالتا ہوں۔ لے گا؟' قلندر پوچھتا ہے۔
'اچھا ماڑا پشاوری قہوہ پلاتا ہوں تجھے!'
'کام کی بات کر۔ کتنے میں دے گا قالین؟'
'تُو نے لینا ہے؟'
'ابے چوّل!'
'اچھا اچھا۔ میرے کو معلوم ہے تُو نے لینا ہے۔ تُو قدردان لگتا ہے۔ ایک بات کروں پٹھان کی؟'
'چل کر لیکن دوبارہ بکواس نہیں!'
'ایک لاکھ روپے!'
'یار تیرا نام تو چوّلِ اعظم ہونا چاہئیے!' قلندر کہتا ہے۔

چھٹا منظر:
پاٹے کا پالتو اینکر ارشد شریف کینیا کے عابد باکسر نے پھڑکا دیا ہے۔ اب وہ مزید خطاب کر رہا ہے:

1۔ یہ ملی بھگت ہے ڈرٹی ہیری اور اس کے بڑے صاحب کی۔ دونوں فوراً مستعفی ہوں۔
2۔ لانگ مارچ لبرٹی چوک سے کل شروع ہو رہا ہے۔ ایک ملین لوگ میرے ساتھ ہوں گے۔

سب کہتے ہیں اس کا نام تو چوّلِ اعظم ہونا چاہئیے!

ساتواں منظر:
قالین والا اس بار قلندر کو یقین دلاتا ہے کہ اسے خوش کر دے گا۔

'ماڑا تُو مجھے جینئن قدر دان لگتا ہے ہاتھ کے بنے ہوئے ایرانی قالینوں کا!'
'ابے میں اینکر آفتاب اقبال، ہارون رشید، کامران شاہد یا عمران ریاض نہیں ہوں جو تیرے جڑواں بھائی پاٹے خان انتشار پارٹی والا کی ہر بکواس پر آمناً و صدقناً کہوں۔ جسے تُو ہاتھ کا بنا ہوا ایرانی قالین کہہ رہا ہے یہ کیچڑ سے بھرے جوتے رگڑنے والی میٹ ہے۔ اپنے باپ کو بے وقوف بناتا ہے!'

'ماڑا تُو تو کوئی پہنچا ہوا قلندر لگتا ہے۔ واقعی قدر دان ہے۔ اچھا چل پچاس ہزار!' پٹھان کہتا ہے۔
'ابے پنکھے لگا ذرا اسے سو جوتے۔' قلندر کہتا ہے۔
پنکھا اے ڈی سی ہے قلندر کا۔ گارڈز کی جانب دیکھتا ہے۔ وہ قالین والے کو پکڑتے ہیں، پنکھا رسید کرتا ہے جوتے اور ریشماں گنتی ہے گنتی!

'کچھ دماغ درست ہوا خان صاحب؟' قلندر پوچھتا ہے۔
'اوئے ماڑا تُو تو ڈرٹی ہیری ہے!'
'ابے میں نے کب کیا تجھے بے لباس؟ میں ہی وہ قلندر ہوں جس کا تُو نے ابھی ذکر کیا۔' قلندر اپنی شناخت ظاہر کرتا ہے۔

آٹھواں منظر:
پاٹے کا لانگ مارچ ناکام ہو رہا ہے۔ وہ اپنے اوپر حملے کا ڈرامہ رچاتا ہے۔ کوئی یقین نہیں کرتا۔ سی این این کی لیڈی اینکرنی اسے آڑے ہاتھوں لیتی ہے۔ پوچھتی ہے ثبوت کیا ہے تمہارے پاس ڈرٹی ہیری، رانا ثناء اللہ اور شوبز شریف کے خلاف۔ پاٹے ثبوت کے بجائے الزامات والے بیانات دہراتا ہے۔ اینکر کہتی ہے: 'ابے پی کے ہے کیا؟' Are you drunk?

نواں منظر:
قالین والا جان چکا ہے کہ اس کا ڈرامہ فلاپ ہو چکا ہے۔ لیکن پھر بھی گاہک کو کھونا نہیں چاہتا۔

'اچھا ماڑا جو تُو خوشی سے دے دے میں قبول کر لوں گا۔'
قلندر جوتے رسید کرنے کے بعد ایک سو ایک پیاز سے بھری بوری پیش کرتا ہے۔ خان خوش ہو جاتا ہے۔ پیاز کی قیمت سونے سے اوپر جو جا چکی ہے۔ شکریہ ادا کرتا ہے۔ قلندر کا سٹاف قالین ڈالتا ہے ویگو میں اور یہ جا وہ جا!

آخری منظر:
لانگ مارچ ٹوٹل فلاپ۔ شہری پاٹے کو گالیاں دے رہے ہیں۔ لاہور میں باجوے کے حق میں ریلیاں ہر گھر سے اس طرح نکل رہی ہیں جیسے بھٹو نکلتا ہے۔ خان صاحب کا آفیشل مراثی استاد جنون علی خان اعتراف کرتا ہے کہ پاٹے نے ڈرٹی ہیری سے سو جوتے کھانے کے بعد معافی مانگ لی ہے۔ اب سو پیاز کھاتے ہی نیا خطاب کرے گا۔ اسی دوران پاٹے کر بھی دیتا ہے:

1۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر شوبز اپنی مرضی کا بندہ لگا دے۔ اس کی حکومت آئینی ہے۔ آئین سر آنکھوں پر!
2۔ ڈرٹی ہیری اور اس کا صاحب محب وطن ہیں اور ہمیشہ حالت وضو میں رہتے ہیں۔
3۔ ارشد شریف اپنی غلطی کی وجہ سے مرا۔ وہ بھیس بدل کر کسی دوسرے ملک جا رہا تھا۔ کالوں نے سمجھا کوئی دہشت گرد ہے۔ غلطی سے پھڑکا دیا۔ انسان خطا کا پُتلا ہے۔ اعظم سواتی کیساتھ جو ہوا وہ مکافات عمل تھا۔ آخر اس نے بھی تو غریب خاندان پر ظلم ڈھایا تھا جب ان کی گائے اس کے فارم ہاؤس پر آ گئی تھی۔
4۔ لانگ مارچ ختم۔ باجوہ بھلے تا حیات آرمی چیف رہے، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ والدین کا سایہ تو تا حیات رہنا چاہئیے۔
5۔ میں نے سرکلر اپنے ہاتھوں سے دستخط کر کے نکال دیا ہے کہ آئندہ سے کوئی سوشل میڈیا بے بی باجوے کی یا فوج کی توہین کھلے یا ڈھکے چھپے انداز میں نہ کرے۔
6۔ اینکر عمران ریاض، آفتاب اقبال، ہارون رشید، کامران شاہد صحافی نہیں بلکہ میرے چمچے تھے۔ آج سے ان سب کی نوکری ختم۔
7۔ میرے لئے باجوے کا آٹوگراف ہی میری پاکستان میں انتشار پھیلانے کی کامیاب کاوشوں کا تحفہ ہے۔ یہ دیکھ لیں!

کیمرہ پیاز کی بوری کو مکمل فوکس کر کے زوم کر دیتا ہے۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔