قلندر کے آستانے پر ادھم مچا ہوا تھا۔ دما دم مست قلندر کا سماں تھا اس کی غیر موجودگی میں۔ عموماً جب قلندر جلوہ افروز ہوتا ہے تو خاموشی چھا جاتی ہے۔ مگر آج ایسا نہ ہوا۔ مریدوں کی دھما چوکڑی جاری تھی۔ مجبوراً قلندر کو ایک موٹی سی گالی کا سہارا لینا پڑا جس کا اثر کچھ شتروگھن سنہا کے 'خاموش' کی مانند تھا۔ قلندر کا دہاڑنا تھا کہ سب کو سانپ سونگھ گیا۔
'ابے کیا اماں کو طلاق ہو گئی ہے جو اتنی خوشیاں منا رہے ہو یا اس نے دوسرا خسم کر لیا ہے؟' قلندر بولا۔
'نہیں سرکار ایسا تو کچھ نہیں ہوا۔ آپ تو ٹی وی دیکھتے نہیں۔ دراصل پاٹے خان کو تڑی پار کر دیا گیا ہے۔' ریشماں بولی جو قلندر کی غیر موجودگی میں آستانے کی ڈپٹی ہوتی ہے۔
'ابے سیدھی طرح بتلا ہوا کیا؟'
'سرکار پاٹے خان نااہل ہو گیا ہے۔ انصاف کا بول بالا ہو گیا۔ جمہوری اداروں کی بالا دستی پھر سے قائم و دائم۔ اب سچی جمہوریت آوے ہی آوے!'
یہ اسحاقہ تھا۔ قلندر کا پرائیویٹ سیکرٹری۔ پکا جیالا۔
'ابے جاہلوں کے بے تاج بادشاہ کتنے سالوں سے جیالا گیری کر رہا ہے تو؟' قلندر نے پوچھا۔
'سرکار پیدائشی جیالا ہوں۔ میرا باپ بھی جیالا تھا۔ میری ماں بھی جیالی تھی۔ میرا سارا خاندان جیالا ہے پچھلے پچاس برسوں سے۔' اسحاقے نے فٹا فٹ جواب دیا۔
'ابے پاٹے خان کو تو پانچ سال کے لئے تڑی پار کیا ہے۔ تم سب کا باپ جس کا نام بھٹو تھا اسے تو اس جہاں سے ہی پار کر دیا تھا جمہوری اداروں نے۔ اس وقت بھی تیرے جیسے بہت اچھل رہے تھے کہ انصاف کا بول بالا ہو گیا۔ اب آوے گی جمہوریت۔ جمہوریت کیا آتی۔ وہ مرد منافق ہم پر مسلط ہو گیا۔ گیارہ برس اسلام کے نام پر اس ملک کا بیڑا غرق کرنے کے بعد جب ادھر آم پک کر زمین پر گرے اور وہ ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ اس دن تیری اماں بھی کولہے مٹکا مٹکا کر اسی آستانے پر ٹھمکے لگا رہی تھی اور کہہ رہی تھی اب راج کرے گی بے نظیر۔ زندہ ہےبھٹو زندہ ہے۔ ابے زندہ تو وہ مردود ہے اور ہر دور میں مختلف ناموں سے نکل رہا ہے۔ راج تو اس کی نسل ہی کر رہی ہے۔ کل بھی کر رہی تھی اور آج بھی۔ ابے وہ راگ ایمن کی کیا بندش گا رہا تھا کل میں؟ بھول ہی گیا۔۔۔۔'
'پیا کی نجریا جادو بھری پیا کی نجریا!' ریشماں قلندر کو یاد دلاتے بولی۔
'ہاں ہاں۔ پیا کی نجریا۔ تو اس وقت پیا کی نجریا کہیں اور ہے۔ وہ جو پہلے دس برس کے لئے تڑی پار کیے گئے اور پھر پیا کی نجریا دوبارہ مہربان ہوئی تو دوبارہ لائے گئے۔ سو جوتے مارے پھر سو پیاز کھلائے اور پھر سنگھاسن پر بٹھایا۔ تو گنجے سمجھے پیا ہماری زلفوں کے اسیر ہو گئے۔ ذرا اوقات سے باہر ہوئے۔ پیا کی نجریا پاٹے خان پر پڑ گئی اور گنجوں کو پھر سے تڑی پار کر دیا گیا۔ پاٹے خان نے جب پر پرزے نکالے تو پیا کی نجریا پھر گنجے فرشتوں پر پڑ گئی۔ تو وہ پھر سے واپس آ گئے حالانکہ انہیں تو تاحیات تڑی پار کیا گیا تھا۔ پاٹے خان کو تو صرف کچھ عرصے کے لئے پانچ کانسٹیبلوں نے تڑی پار کیا ہے۔ ابھی وہ کسی اے ایس آئی کے پاس درخواست لے کر جاوے گا تو بحال ہو جائے گا۔ لیکن پیا کی نجریا کے بغیر اے ایس آئی کچھ نہ کر سکے گا،' قلندر بولا۔
'تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاٹے خان کی واپسی ممکن ہے؟' حاجی نورا بولا۔
'بالکل۔ دراصل پیا کو چلے ہوئے کارتوس بہت پسند ہیں۔ وہ خطرناک نہیں ہوتے۔ بے نظیر دو بار استعمال کی گئی۔ تیسری بار زرداری کی شکل میں۔ گنجے تو چوتھی بار استعمال ہو رہے ہیں۔ ابھی تو کارتوس خان میں بہت پوٹینشل ہے۔ ابھی تو اسے دوسری بار بھی لوڈ نہیں کیا گیا۔ اس کی باری ضرور آئے گی اور جلد آئے گی۔'
'وہ کیسے؟' نورے نے پوچھا۔
'وہ ایسے کہ پانچ کا ہندسہ بہت اہم ہوتا ہے۔ پاٹے خان تڑی پار بذریعہ پانچ کانسٹیبلوں کے۔ اور پیا جی پانچ ہفتے بعد پرلوک سدھارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہری اوم ہونے ہی والا ہے۔ پانچ ہفتے بعد نیا پیا اور نئی نجریا۔ ہو سکتا ہے پاٹے خان کا کوئی ٹھمکہ دل کو بھا جاوے۔ یا ہو سکتا ہے گنجے بے تال ہو جاویں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ابے جب طالبان کو عالمی دہشت گرد قرار دے کر دنیا بیس سال کی جنگ مسلط کر سکتی ہے اور پھر منہ کی کھا کر خاک چاٹ کران سے ہی صلح کر سکتی ہے تو گنجے یا جیالے یا پاٹے خان، یہ سب تو معصومین ہیں بیچارے،' قلندر بولا۔
'تو پھر حقیقی جمہوریت کب آئے گی؟ اس بار کئی مرید اکھٹے بولے۔
'فی الحال تو اگلے پانچ ہفتوں تک جمہوریت ہی جمہوریت ہے!' قلندر نے جواب دیا اور سب مرید پھر سے دما دم مست قلندر شروع ہو گئے!
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔