طلال چودھری نے تحریکِ انصاف کی خاتون رہنما کنول شوذب سے بات کرتے ہوئے ایک بار پھر انتہائی نازیبا زبان استعمال کی ہے۔ چینل 24 پر بات کرتے ہوئے کنول شوذب نے طلال چودھری کو ان کا سیاسی ماضی یاد دلایا تو طلال چودھری کا جواب تھا کہ ’میری بہن جہاں جہاں سے ہو کے آئی ہو میں ساری چیزیں نہیں بتا سکتا۔ اور کہاں کہاں، ہمارے پیچھے بھی پھرتی رہی ہو، اپنی بات کا جواب دو‘۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ’مخصوص نشست پر آئی ہوئی ہو، آئی کیسے ہو سارے اسلام آباد کو پتہ ہے‘۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1191690869394563072
مسلم لیگ ن کے حامی چاہے کتنی ہی کوشش کر لیں، طلال کے الفاظ اور کنول کے الفاظ کو ایک ہی ترازو میں نہیں تول سکتے۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی کو لوٹا ہونے کا طعنہ دینے میں اور کسی کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھالنے میں بہت فرق ہے۔
مسئلہ صرف طلال چودھری کے اس ایک جملے کا ہے نہیں۔ یہ مسلم لیگ کا کلچر ہے۔ کبھی کسی کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ دیا، کسی کو ڈمپر کہہ دیا، کسی پر مرد ہونے کی پھبتی کس دی تو کسی کے کردار پر محض اس لئے سوال اٹھا دیا کہ وہ مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن بنی۔ یہ وہی جماعت ہے جو بینظیر بھٹو کی تصاویر ہیلی کاپٹر سے لوگوں کے گھروں پر گروا چکی ہے۔ شیخ رشید صاحب بھلے اب پی ٹی آئی کو پیارے ہو چکے ہوں مگر وہ مسلم لیگ ہی کا حصہ تھے جب بی بی شہید کو بھرے جلسوں میں باقاعدہ گالیاں دیا کرتے تھے۔ یہ وہی جماعت ہے جس نے کئی سال نصرت بھٹو سے متعلق بیہودہ گفتاری جاری رکھی۔ نواز شریف خود پی ٹی آئی کے دھرنوں میں موجود خواتین کے بارے میں ذومعنی گفتگو کر چکے ہیں۔ اور یہ تو حال ہی کی مثالیں ہیں۔ اس جماعت کے لوگ 1945-46 کی انتخابی مہم میں بھی ’خضر کی بیٹی‘ کے لئے غلیظ زبان استعمال کر چکے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ باقی جماعتیں دودھ کی دھلی ہیں۔ شیریں مزاری اور ایمان مزاری اس بات کی گواہی دیں گی۔ فردوس عاشق اعوان کی کشمالہ طارق سے متعلق گفتگو کون بھول سکتا ہے؟ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل مریم نواز سے متعلق انتہائی بیہودہ زبان استعمال کر چکے ہیں۔ آغا سراج درانی نے نصرت سحر عباسی کے ساتھ سندھ اسمبلی کے فلور پر ذومعنی گفتگو کی اور وہ بھی بطور سپیکر۔ اور عامر لیاقت کے بارے میں تو بات ہی کیا کی جائے؟
مگر مسلم لیگ نواز کی باگ ڈور اب ایک عورت سنبھالنے جا رہی ہے۔ نواز شریف صاحب کو اللہ صحت اور تندرستی عطا فرمائے لیکن وہ اب عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہیں کہ شاید جلد یا بدیر انہیں مسلم لیگ ن کی باگیں اپنی بیٹی کے ہاتھ میں منتقل کرنا ہوں گی۔ مریم نواز کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ بینظیر بھٹو کے دامن کو داغدار کرنے کا گناہ ان کی جماعت کے سر موجود ہے۔ اور اگر وہ اس داغ کو دھونا چاہتی ہیں تو انہیں سب سے پہلے اس سوچ کے حامل لوگوں کو خود سے دور کرنا ہوگا۔
مریم نواز کو اس بات کا شاید احساس بھی ہے۔ کیونکہ یہ بات وہ چند ماہ قبل وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہہ چکی ہیں کہ مسلم لیگ ن میں خواتین بیزاری کا مسئلہ ہے۔ لیکن انہیں مسلم لیگ ن میں تمام بچھڑے ہوئے طبقات کو جگہ دینی ہے تو ان بدتہذیب لوگوں سے جان چھڑانا ہوگی، اور یہ شبھ کام جتنی جلدی کیا جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔