https://twitter.com/sakhtarmengal/status/1323995658127331329
تاہم بلوچستان حکومت کے سپوکس پرسن لیاقت شاہوانی نے کہا تھا کہ بایزید خان کھروٹی اغوا نہیں کیا گیا بلکہ انہیں حوالہ پولیس کیا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ وہ ڈی جی لیویز کی ایک تقریب میں زبردستی گھس آئے تھے۔ اور جب انہیں باہر نکلنے کا کہا گیا تو انہوں نے سٹاف کے ساتھ بد تمیزی کی اور گالیاں نکالیں اس لیے ان پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور اب انہیں مجسٹریٹ کے ہاں پیش کیا جائے گا۔
https://twitter.com/LiaquatShahwani/status/1324007245223440386
بایزید خان کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ انہیں اغوا کیا گیا اور انکی حراستگی کی کوئی اطلاع نہیں کی گئی۔ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنے سے قبل بھی انکے اہل خانہ کو نہیں بتایا گیا کہ وہ کہاں ہیں۔ اسی لئے انکے بھائی اور دوستوں نے خروٹ آباد روڈ کوئٹہ میں دھرنہ بھی دیا تھا۔ تاہم جب سوشل میڈیا پر انکی گمشدگی کے خلاف آواز اٹھائی گئی اور سردار اختر مینگل نے ٹویٹ کی تب بلوچستان حکومت کے نمائندے نے بتایا کہ وہ کوئٹہ پولیس کی حراست میں ہے۔ ان کے خاندان کو نا ہی بتایا گیا کہ وہ کہاں ہیں اور نا ہی انہیں کوئی ایف آئی آر دکھائی گئی بلکہ پولیس نے انکی گمشدگی سے لا علمی کا اظہار کیا۔
Photos of the protest by journalist Bayazid's family.
Reminder:
He was missing for hrs.
Balochistan govt tweeted he was in *custody* when family/HRDs raised it online.
Family does not know where he is detained.
No FIR yet. #whereisbayazid #endimpunity #journalismisnotacrime pic.twitter.com/F08hLWbVqi
— Rabia Mehmood - رابعہ (@Rabail26) November 4, 2020
تاہم بعد میں ان کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی گئی اس میں ان پر کار سرکار میں مداخلت، اور سرکاری افسران کو انکے کام سے روکنے ، گمراہ کرنے اور بے عزت کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا۔
بایزید خان کو آج مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ پیشی کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے انکا کہناتھا کہ انہیں اغوا کیا گیا لیکن بعد میں خبر سوشل میڈیا پر آنے کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایف سے کے پروٹوکول کی فوٹیج بنا رہے تھے تو سیکورٹی اہکاروں نے انہیں روکا اور انکا موبائل چھین لیا، زد و کوب کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
https://twitter.com/Rabail26/status/1324283172754894848