پاکستان میں میڈیا ایک سیارے کی مانند گردش میں ہے اور اس میں نت نئی تبدیلیاں اور آوازیں بیدار ہو رہی ہیں۔ کبھی آزادی اظہار کی آوازبلند ہوتی ہے تو کبھی میڈیا ورکرز اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ ریاست کا چوتھا ستون آج دگرگوں حالات کا شکار ہے۔ پرنٹ میڈیا سے ڈیجیٹل میڈیا تک ایک بڑی تبدیلی پیدا ہو چکی ہے اور اس کے متعلقات بھی سامنے آ گئے ہیں۔ پھول کی خوشبو اپنے چہار اطراف ایک خوشگوار احساس پیدا کرتی ہے۔ بہت کم ایسی شخصیات ہیں جو اس احساس کو اجاگر کرتی ہیں۔ اعظم چوہدری ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے۔ لاہور پریس کلب کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے ایک عام میڈیا ورکر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس کے کندھے پر دست شفقت رکھا اور اس کے ہم راہ چلے۔ مجھے ذاتی طور پر اس حقیقت کا تجربہ ہوا جب وہ پریس کلب کے صدر تھے۔ آج کے میڈیا کے حالات کے حوالے سے ان سے کی گئی گفتگو ان کے سچے اور کھرے خیالات اور نظریات کا ماحصل ہے۔
ان کا کہنا ہے؛ " پرنٹ میڈیا کو ختم کیا گیا ہے۔ اخبارات کے مالکان بھی اس میں شامل ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اخراجات کم ہوں اور کمائی زیادہ ہو۔ اس لیے ڈاؤن سائزنگ کر کے تین ورکرز کا کام ایک سے لیا جا رہا ہے۔ اخبارات کا سائز چھوٹا کر کے کاغذ کی بچت کی جا رہی ہے۔ اب آپ کو چند ایک اخبارات ہی سٹال پر دکھائی دیتے ہیں جبکہ اشتہارات کی مد میں کروڑوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔ ایسی حقیقی خبر کوئی نہیں دیتا جس سے قاری مطمئن ہو۔ اس لیے قاری سوشل میڈیا کی طرف شفٹ کر گیا ہے کیونکہ اسے اخبارات میں 'آلودہ خبریں' ملتی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اربوں روپے کا پروجیکٹ ہے۔ مالکان یہاں بھی اپنا پیسہ بچانا چاہتے ہیں۔ تمام الیکٹرانک میڈیا میں کوئی بورڈ ہی نہیں جو خبریت کو مدنظر رکھے۔ 95 فیصد میڈیا مالکان وہ ہیں جن کے کاروبار دیگر ہیں اور وہ انہیں تحفظ دینے کے لیے میڈیا میں آتے ہیں۔ خبر تو غائب ہو چکی ہے اسی لیے تمام تر توجہ اب سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا نے اپنی جانب مبذول کرا لی ہے۔ کوئی بھی خبر جو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نہیں چاہتی وہ سامنے آئے، میڈیا مالکان اسے اپنے مفادات کے لیے غائب کر دیتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ حکومت بھی پریشان ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا کے اثرات کو روکنے کے لیے فائر وال میں اربوں روپے کی ایپلیکیشن لائی جا رہی ہیں جس سے ڈیجیٹل کاروبار کرنے والے شدید متاثر ہوتے ہیں اور اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے جس کے باعث یہ کمپنیاں اپنا کاروبار دیگر ممالک میں منتقل کر رہی ہیں"۔
سوال: ان تمام حالات کے باوجود بہت بڑی تعداد میں لوگ میڈیا کی طرف کیوں آتے ہیں؟
"اس کی سادہ سی وجہ تو یہ ہے کہ آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ تعلیمی درسگاہوں کے مختلف شعبے رش کا شکار ہوتے ہیں۔ ماس کام کرنے والے طلبا کے پاس بہت کم مواقع بچتے ہیں۔ محدود آپشن بچتے ہیں۔ سو لوگ چار و ناچار اسی طرف آ رہے ہیں۔ پریس کلب میں ہونے والی حالیہ نئی ممبرشپ ہی کو دیکھ لیں کتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں نے ممبرشپ کے لیے اپلائی کیا ہے"۔
سوال: مستقبل کا منظر نامہ کیا دکھائی دیتا ہے؟
"تمام سیاسی پارٹیاں، اسٹیبلشمنٹ کے ادارے اور جیوڈیشری بھی نہیں چاہتے کہ ان پر تنقید کی جائے۔ آزادی اظہار کو تھائی لینڈ کے ماڈل میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہاں فوجی بغاوت ہوئی تو ایک ایسا ماڈل تشکیل دیا گیا جو بظاہر آزاد میڈیا کی تصویر پیش کرتا ہے لیکن پس پردہ کنٹرولڈ ہے۔ یہاں بھی تمام سیاسی جماعتوں کی یہ خواہش ہے کہ ایسا ہی ماڈل بنایا جائے۔ یہی ماڈل روس، چین، سعودی عرب اور شمالی کوریا میں بھی مروج ہے"۔
سوال: گرانٹ، پلاٹ اور فنڈ آزادی اظہار کو کس حد تک متاثر کرتے ہیں؟
"صحافیوں کو اس وقت کمزور کیا گیا جب تنظیموں کو فنڈ اور گرانٹ کے نام پر پیسے دیے گئے جس کے عوض بنیادی حقوق گروی رکھ دیے گئے۔ پھر پلاٹوکریسی آ گئی اور اب بات پلاٹوں سے بھی آگے چلی گئی ہے۔ میڈیا پر چند نمایاں دکھائی دینے والے چہروں کو پلاٹوں سے کہیں زیادہ پیسے دے کر اپنا ترجمان بنایا جا رہا ہے۔ یہ خودساختہ ترجمان عوام کی بجائے ان ہی کی زبان بولتے ہیں۔ یونین کے لبادے اوڑھے گئے۔ سوسائٹی میں لوٹ مار کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا۔ پریس کلبوں کو حکومت نے کنٹرول کرنا شروع کر دیا ہے"۔
سوال: آپ کے نزدیک آزاد صحافت کی تشریح کیا ہے؟
"میری نظر میں صحافت کی حقیقی تشریح یہ ہے کہ جو دیکھیں اسے من و عن عوام تک پہنچائیں، کوئی بھی ادارہ حکومت یا سیاسی جماعتیں اس پر قدغن لگاتی ہیں تو یہ آئین سے غداری کے مترادف ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ آزادی اظہار کا حق ہی چھین لیا جائے؟
میں نے جیسا کہ بتایا ہے کہ بہت سارے ایسے چہرے ہیں جن کی تنخواہوں کے صفر بڑھتے جاتے ہیں، یہ ان کی وفاداری سے مشروط ہوتا ہے۔ میں نے تمام عمر اپنے کام کو ایک عبادت کی طرح انجام دیا ہے۔ مجھے اور میرے اہل خانہ کو جس قدر ضرورت ہوتی ہے میرا خدا مجھے دے دیتا ہے۔ پھر مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں اپنی تنخواہ میں صفر بڑھانے کے لیے اللے تللے کروں اور عوام کی بجائے کسی اور کی ترجمانی کروں۔ میرا تمام کریئر اس حقیقت کا گواہ ہے کہ میں نے ہمیشہ سچ اور اپنے ضمیر کی آواز کا ساتھ دیا ہے"۔