نیشنل پریس کلب راولپنڈی/اسلام آباد کی ممبرشپ بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے، پہلے ایسا نہیں تھا۔ سابق ڈکٹیٹر پرویزمشرف کی ڈکٹیٹرشپ کے دور میں پرویز الہی کی پنجاب حکومت نے صحافیوں کو پلاٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔ پہلی صحافی کالونی لاہور میں بنی اور میڈیا ٹاؤن راولپنڈی/اسلام آباد میں بنا تھا۔ اصل گیم پلاٹوں سے شروع ہوتی ہے کہ پلاٹ کا اہل صرف پریس کلب کا ممبر ہوتا ہے۔
دوسری اہم وجہ پریس کلب میں عہدے داری ہو تو پیسہ خوب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اداروں سے تنخواہ بے شک نہ ملے مگر پریس کلب کی ممبرشپ ضرور ہونی چاہیے۔ راقم کے سامنے کئی لوگ آئے۔ چار دن پریس کلب کے صدر کی چاپلوسی کی، بھاگ بھاگ کر کام آئے اور مستند صحافی قرار پائے۔ یہی سے قائد صحافت کی اختراع ہوتی ہے۔ پھر تعلیم پوچھی جاتی ہےاور نہ صحافتی اہلیت کو دیکھا جاتا ہے، یوں ممبرشپ ڈرائیو چلتی ہے۔
نیشنل پریس کلب منڈی کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ میڈیا ٹاؤن سے صحافت پر پراپرٹی ڈیلری غالب ہوتی ہے۔ متعدد صحافی پراپرٹی ڈیلر بن جاتے ہیں۔ قائد صحافت میڈیا فیز 2 کے لئے نیا مشن لے کر نکلتے ہیں۔ ایک جرنلسٹس یونین لیڈر صحافیوں کے نام پر ٹاؤن کا اعلان کر کے دکان سجا کر میدان میں آ جاتے ہیں۔ بات یہی ختم نہیں ہوتی ہے۔
میڈیا ورکرز کی ایک تنظیم بھی ممبران سے پلاٹوں کے پیسے جمع کرتی ہے۔ فوٹو گرافرز الگ سے جرنلسٹس ایسوسی ایشن بنا کر پلاٹ دینے چل پڑتے ہیں۔ قائد صحافت کی شبانہ روز محنت سے نیشنل پریس کلب پارلیمنٹ جیسی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ ممبرشپ بھی چارمنگ ہے اور الیکشن میں جانا تو اور بھی زیادہ فروٹ فل ثابت ہوتا ہے۔ پریس کلب جب سے کماؤ بنا ہے۔ سالانہ فیس بھی فوری جمع کرائی جاتی ہے اور انتخابات میں امیدواروں کی تعداد بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ الیکشن کمپین بھی اب کسی ایم این اے سے کم نہیں ہوتی ہے۔ پراپرٹی ڈیلرز خوب پیسہ لگاتے ہیں۔
نیشنل پریس کلب کے موجودہ صدر شکیل قرار عجیب صدر ہیں، سال بھر صدر رہے ہیں۔ میڈیا فیز 2 کا نام نہیں لیا اور اب ضد پر اڑے ہیں کہ سکروٹنی کے بغیر الیکشن نہیں ہوں گے۔ قائد صحافت کے سیکرٹری انور رضا نے حق ادا کیا مگر صدر شکیل قرار کی ضد جیت گئی اور سنیئر صحافی نواز رضا کی سربراہی میں سکروٹنی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ کسی دور میں نواز رضا پر بھی یہی الزام تھا جس کی زد میں قائد صحافت ہیں۔ نواز رضا کے بعد قائد صحافت کے مطالبے پر سکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور ممبرشپ لسٹ کو پاک کیا گیا تھا۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ آج قائد صحافت کی لسٹ کو پاک کرنے کی ذمہ داری نواز رضا کو سونپی گئی ہے۔
چیخ وپکار اس مر کی تصدیق ہے کہ نواز رضا کی سکروٹنی کمیٹی نے سخت ہاتھ ڈالا ہے۔ سکروٹنی کمیٹی چیخنے چلانے والوں سے تعلیمی اسناد، ادارے کا لیٹر اور ان کے صحافتی کام طلب کرے۔ جو معیار پر پورا اترتے ہیں ان کو ضرور ممبرشپ دی جائے، ممبرشپ ان کا حق ہے۔ سکروٹنی کمیٹی ممبرشپ کا میرٹ بھی مقرر کرے۔ تعلیمی معیار، اہلیت اور صحافتی کیریئر سمیت عامل صحافی کی تعریف بھی واضح کی جائے تاکہ پریس کلب منڈی بننے سے محفوظ رہے۔
پریس کلب صحافیوں کا گھر ہے جسے صاف ستھرا رکھنے کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں کا احتساب ہوتا ہے تو صحافتی پراپرٹی ڈیلروں کا بھی احتساب کیا جائے۔2007 سے 2020 تک کی منی ٹریل چیک کی جائے۔ پریس کلب کی اقدار اور ماحول کو خراب کرنے والوں کا احتساب بھی کیا جانا ازحد ضروری ہے۔ جنہوں نے پریس کلب اور صحافت کو بے توقیر کیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔