صوبہ سندھ کے شہر نوشہرہ فیروز کے پڈعیدن پریس کلب پر ہونے والے حملے میں ایک صحافی ہلاک ہو گیا۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) نوشہرہ فیروز طارق ولایت نے صحافی علی شیر راجپر کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔ مقتول صحافی سندھی اخبارعوامی آواز سے منسلک تھے اور مقامی پریس کلب کے عہدیدار بھی تھے۔
پولیس حکام کے مطابق، لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جب کہ فی الحال صحافی کے قتل کے محرکات کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات حاصل نہیں ہو پائیں۔
ایس ایس پی طارق ولایت کے مطابق، حملہ آور جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا جسے بعدازاں پولیس نے گرفتار کر لیا۔
پولیس کے مطابق، مبینہ ملزم حبیب کا بیان سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت ریکارڈ کر لیا گیا ہے جس میں اس نے یہ اعتراف کیا ہے کہ مقتول صحافی علی شیر راجپر نے انہیں ایک خاندانی معاملے میں پریشان کیا تھا جس کے باعث وہ معافی کے لائق نہیں تھا۔
بے نظیرآباد پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا اور اس سے اسلحہ بھی برآمد کر لیا۔
واضح رہے کہ صحافیوں کے تحفظ اور ان پر ہونے والے تشدد کے واقعات کی نگرانی کرنے والے غیر سرکاری ادارے ’پاکستان پریس فاؤنڈیشن‘ (پی پی ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق، ملک بھر میں 2002 سے اپریل 2019 تک صحافیوں کے قتل، تشدد، اغوا اور اس نوعیت کے 699 واقعات وقوع پذیر ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں گزشتہ قریباً دو دہائیوں کے دوران 72 صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں سے 48 صحافی خالصتاً خبر دینے، معلومات دوسروں تک پہنچانے اور واقعات کی کوریج کے دوران قتل کیے گئے جب کہ 24 دیگر صحافیوں کو مختلف وجوہ کی بنا پر قتل کیا گیا۔
2014 میں سب سے زیادہ سات صحافی مارے گئے، 2012 میں چھ صحافی نشانہ بنے جب کہ 2010 میں بھی صحافیوں کے قتل کے سات واقعات پیش آئے۔
پی پی ایف نے اس عرصہ کے دوران پاکستانی میڈیا میں سینسرشپ کے 130 واقعات کی نشاندہی بھی کی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ 18 برسوں کے دوران مختلف واقعات میں 171 صحافیوں کو شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ اسی عرصہ کے دوران 77 صحافیوں پر معمولی تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔