’’مجھے سوات پریس کلب کی ممبر شپ سے اس لئے محروم کیا گیا کیونکہ میں ایک خاتون ہوں‘‘

’’مجھے سوات پریس کلب کی ممبر شپ سے اس لئے محروم کیا گیا کیونکہ میں ایک خاتون ہوں‘‘
یہ سال 2009 کے دن تھے اور میں سوات کے علاقے سیدو شریف میں ایک مقامی ہاسٹل میں رہائش پذیر تھی اور انٹرمیڈیٹ کی طالبہ تھی جب آہستہ آہستہ سوات میں طالبان کی آمد کی وجہ امن و امان کے حالات مخدوش تر ہوتے جا رہے تھے اور ایک دن حکومت کی جانب سے اعلان ہوا کہ طالبان کے خلاف آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ لوگ محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کریں جس کے بعد میں بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی اور وہاں سے ہم نے گھر والوں سمیت ہجرت کی۔

میں نے سوات سے لوگوں کو ہجرت کرتے ہوئے دیکھا۔ بوڑھے، جوان اور خواتین مشکل حالات میں سوات سے ہجرت کر رہے تھے اور یہی وہ حالات تھے جن نے مجھے عملی زندگی میں صحافی بننے کی طرف مائل کیا اور کچھ سال بعد میں خیبرپختونخوا کے شہر سوات کی پہلی خاتون صحافی بن گئی۔ مگر صحافتی حلقوں میں نہ صرف میری شناخت سے لوگ انکاری ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ میرے وجود کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔

یہ کہانی خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے مٹہ سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی شائستہ حکیم کی ہے۔ جنہوں نے اپنی روداد ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو بتائی۔ شائستہ حکیم کا تعلق سوات کے علاقے مٹہ سے ہے جو سوات آپریشن سے پہلے دہشتگردوں کا گڑھ تھا۔ سوات یونیورسٹی سے وہ پہلی خاتون ہیں، جنہوں نے صحافت اور ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

شائستہ حکیم اس وقت پشتو زبان کے ٹی وی چینل خیبر نیوز سے بطور ایک رپورٹر وابستہ ہیں۔ شائستہ حکیم نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر سوات میں دہشتگردی جنم نہ لیتی تو شاید میں صحافی نہ بنتی، مگر حالات نے مجھے صحافت کے میدان میں اُتار دیا اور اب میں پدرسرانہ معاشرے میں صحافت کے جنون کو آگے لے کر جا رہی ہو۔

انھوں نے مزید کہا کہ صحافت کے شعبے سے وابستگی کے بعد نہ صرف گاؤں والوں نے بلکہ رشتہ داروں نے بھی اعتراض کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھ پر تنقید بھی کی جس کی وجہ سے میں گاؤں جانے سے کتراتی ہوں اور آج کل میں گاؤں نہیں جا رہی۔

سوات کی پہلی خاتون رپورٹر شائستہ حکیم گذشتہ 9 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں اور اس دوران وہ ریڈیو پاکستان، ٹرائبل نیوز نیٹ ورک (ٹی این این)، مشرق ٹی وی اور دیگر اردو جریدوں کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔ انھوں نے بین الاقوامی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ سوات میں خواتین کی تعلیم کا تناسب زیادہ ہے مگر یہاں پر بیٹیوں کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ یا تو ڈاکٹر بن جاؤ یا پھر درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوجاؤ کیونکہ ان میں لڑکیاں محفوظ اور باعزت رہتی ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ آپ اس پدرسرانہ ماحول میں جتنا بھی دل لگاؤ اور محنت کر کے اچھی سٹوریز دو مگر کوئی آپ کی تعریف نہیں کرتا۔ اس وجہ سے نہیں کہ آپ کا کام اچھا نہیں یا آپ میں کوئی مسئلہ ہے بلکہ صرف اس وجہ سے کہ آپ کے وجود سے انکار ہوتا ہے کیونکہ آپ ایک خاتون ہیں۔  یہ کسی بھی خاتون کا بڑا جرم ہوتا ہے۔

اپنے انٹرویو میں انھوں نے مزید کہا کہ مجھے ابھی تک نہ الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن کی ممبر شپ ملی ہے اور نہ ہی سوات پریس کلب کی کیونکہ وہاں مجھے قبول نہیں کیا جاتا۔ جب بھی میں پریس کلب جاتی ہو تو مجھے یہی کہا جاتا ہے کہ خیبر نیوز کا ایک اور رپورٹر اس وقت سوات پریس کلب سے وابستہ ہے اس لئے ہم آپ کو ممبرشپ نہیں دے سکتے۔

سوات کے ایک صحافی نے شائستہ حکیم کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ شائستہ سوات سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون صحافی ہے جنہوں نے متعلقہ شعبے میں ماسٹرز کی ہے اور جب سوات یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ ڈگری کا آغاز ہوا تو چار لڑکیوں نے اس میں داخلہ لیا تھا جن میں سے ایک شائستہ حکیم تھیں۔ باقی تین لڑکیوں نے ڈگری کے بعد عملی صحافت میں قدم نہیں رکھا جبکہ شائستہ نے اپنے لئے اس شعبے کا انتخاب کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ خاتون صحافی نے سوات اور چترال کے دور افتادہ علاقوں میں مختلف سٹوریز پر کام کیا اور خود کو منوایا مگر یہاں پر اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا جو کہ صحت مند عمل نہیں۔

شائستہ حکیم نے مزید کہا کہ مجھے لوگوں نے کہا کہ سوات چھوڑ کر پشاور یا اسلام آباد چلی جاؤ وہاں روزگار کے مواقعے بھی زیادہ ہیں اور سماجی مسائل کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا مگر میں اس سرزمین میں پیدا ہوئی ہوں اور یہاں پر ہی کام کروں گی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔