یوں تو وطن عزیز بے شمار گوناگوں مسائل کا شکار ہے ،مگر ایک مسئلہ جو بہت شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہماری بدنامی کا باعث بن رہا ہے ہمارے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے اوپر جبری مذہب تبدیلی کی جو تلوار لٹکا دی گئی ہے وہ ایک حطرناک صورت حال اختیار کرتی جا رہی ہے ،کیسی عیب سی بات ہے پورے ملک میں اقلیتوں کی لڑکیاں ہی اسلام سے متاثر ہو رہی ہیں اور اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان مردوں سے شادیاں کر رہی ہیں اقلیتوں کے مردوں کو راغب اسلام نہیں کیا جا رہا آخری اقلیتی مرد یوسف یوحنا مسلمان ہوئے تھے اس بات کو 15 سال ہوگئے ہیں ، سندھ پنجاب خیبر پختونخوا میں بسنے والے ہندؤں سکھیوں اور مسیحیوں کی خواتین پر بھرپور حملے جاری ہیں اکثر لڑکیوں کی عمریں 18 سال سے کم ہیں اور انکے نابالغ ہونے کے باوجود نکاح ہو رہے ہیں ۔
اس ضمن میں ریاستی ادارے اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں ،اور ان مسلمان مردوں کو تھانویں میں باقاعدہ تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جو اس عمل میں شریک ہوتے ہیں سندھ پہلے خوبصورت ہندؤ لڑکیوں جن میں ڈاکٹر لتا اور رلنکل کماری نمایاں انکے ساتھ مذہب تبدیلی کا عمل شروع ہوا وہ دونوں بالغ تھیں مگر مذہب تبدیلی کے عمل کا شکار ہیں ہوئیں اب ایک مسیحی بچی آرزو راجہ جو نابالغ ہے عمر کوئی 13 یا 14 سال ہو گی جس سے شادی کی ہے وہ 44 سال کا ہے دونوں کی عمروں میں 30 سال کا فرق ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں محبت عمر اور مذہب سے بالاتر ہوتی ہے مگر اس کیس میں عشق سے زیادہ معاشی معاملات میں نظر آرہے ہیں آرزو راجہ کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے اسکی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں بظاہر وہ اپنی مرضی سے سب کچھ کرنے کا اقرار کر رہی ہے ،یہ ٹھیک ہے مذہب تبدیلی کی کوہی قانونی عمر نہیں ہوتی مگر شادی کرنے کی عمر 18 سال مقرر ہے اس تناظر میں عدالت اس شادی کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
بہرحال کیس عدالت میں چل رہا ہے دکھیں کیا فیصلہ ہوتا ہے ،اس ساری صورتحال میں ان تمام لڑکیوں کی جو سب سے بڑی وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ غربت ہے اور اپنے برترین معاشی حالات سے فرار ہے ،جہاں ریاستی سطح پر اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لیے ٹھوس اقدامات ہونے چاہئیں انکی تعلیم اور روزگار کے مساہل حل ہونے چاہئیں وہاں اقلیتوں کے ارباب اختیار کو بھی سنجیدگی سے اس مسلے کا حل تلاش کرنا ہو گا۔
اپنی قوم کی دنیاوی اور مذہبی تعلیم پر بھی بھرپور توجہ دینی ہو گی ،دہکھیں کس قدر عیجب بات ہے ہندو اور سکھ بھارت کا اور مسیحی یورپ اور امریکہ کی طرف جا رہے ہیں کیا ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں ایک بھی غیر مسلم نہ رہے ،سماجی اور ریاستی سطح پر جبر کا شکار یہ اقلیتوں کو ملک سے باہر کیں پناہ مل جاتی ہے اور وہاں جا کر اپنے آپ بیتیاں بیان کرتے ہیں تو وہ وطن عزیز کے ساتھ کوئی غداری نہیں کرتے بلکہ ساحر لدھیانوی کے اس شعری مصرعے کی تشریح کرتے ہیں ،،دنیا نے جو تجربات و حوادث کی شکل
؎ جو دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
آخر میں وزیراعظم عمران خان اور تمام حزب اختلاف سے گزارش ہے کہ اس سنگین مسئلے کا حل تلاش کریں۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔