'مذہب کی تبدیلی کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں' اسلامی نظریاتی کونسل نے جبری مذہبی تبدیلی کا مسودہ رد کر دیا

'مذہب کی تبدیلی کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں' اسلامی نظریاتی کونسل نے جبری مذہبی تبدیلی کا مسودہ رد کر دیا

اسلام آباد : وزارت مذہبی امور کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا گیا جبری مذہبی تبدیلی کا بل اسلامی نظریاتی کونسل نے منسوخ کرتے ہوئے واضح کیا کہ شرعی لحاظ سے مذہب کو قبول کرنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں اور مذہب کو عمر کے کسی حصے میں بھی قبول کیا جاسکتا ہے جس کے بعد جبری تبدیلی مذہب کا بل کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

واضح رہے کہ ملک میں اقلیتوں خصوصاً ہندو کمیونٹی کو درپیش جبری مذہبی تبدیلیوں کے مسئلے پر پارلیمانی کمیٹی مسلسل ایک سال سے بحث کررہی ہے۔ اس بحث کے بعد مذہب کی جبری تبدیلیوں کو روکنے کے لئے ایک بل پارلیمان میں لایا گیا تھا جس پر رائے لینے کے لئے اس کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجا گیا تھا۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے جبری مذہب تبدیلی بل کا مسودہ منسوخ کرتے ہوئے رائے دی کہ مذہب اسلام کو قبول کرنے کے لئے عمر کی کوئی شرط مقرر نہیں کی گئی ہے۔

وزارت مذہبی امور کی جانب سے رائے لینے کے لئے بھیجا گیا جبری تبدیلی مذہب بل کا مسودہ اسلامی نظریاتی کونسل نے واپس بھیجوا دیا۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے اس بل پر اعتراض اٹھانے کے بعد مینارٹی کوکس کے صدر لالہ روبن ڈینیئل نے مذہب کی جبری تبدیلی کیخلاف بل مسودے پر وزارت مذہبی امور اور مذہبی و سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کو بلاجواز قراردیتے ہوئے اسے اسمبلی میں مسترد کئےجانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لالہ روبن ڈینیئل کا کہنا تھا کہ آئین تمام پاکستانی شہریوں کو رنگ و نسل ، مذہب اور زبان میں تفریق کئے بغیر برابری کے حقوق دیتا ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں قوانین پر عملدرآمد کروانے میں ناکام رہی ہیں، غیر مسلم کمسن بچیوں کو جبراً مذہب تبدیل کروانے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹرقبلہ ایاز نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ سندھ سے کسی رکن قومی اسمبلی نے یہ بل تیار کیا تھا اور پھر اس سلسلے میں اس رکن نے وزارت انسانی حقوق کی بھی مدد لی۔ 'ابھی اس کا مسودہ گردش میں ہی تھا کہ وزارت مذہبی امور نے کہا کہ وہ بھی اس مسئلے میں اسٹیک ہولڈر ہیں اور مذہبی امور کی وزارت نے پھر بل ہمیں بھیجا جس پر ہمارے تحقیقی شعبے نے اس پر اپنی رائے دی ہے اور بل کو مذہبی امور کی وزرات کو بھیج دیا گیا ہے۔ قبلہ ایاز نے کہا کہ کونسل کے ارکان کی رائے یہی ہے کہ اسلام میں تبدیلی مذہب کی کوئی عمر مختص نہیں ہے اور نہ عمر کی حد ہے۔

اس بل پر اسلامی نظریاتی کونسل میں بحث ہونے سے پہلے دی نیوز اخبار کے تحقیقاتی سیل کے ایڈیٹر انصار عباسی نے بحث اور مباحثہ شروع کیا اور اس بل پر اعتراضات اٹھائے جس کے بعد پاکستان میں دائیں بازو کے حلقوں اور خاص طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں نے تنقید شروع کی۔

اس بل پر موقف دیتے ہوئے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ف کے ارکان نے ایوان میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس بل کو منظور کیا گیا تو وہ ملک بھر میں احتجاج کرینگے اور اس بل کو پاس کرنے نہیں دینگے۔

پاکستان ہندو کونسل کے صدر ڈاکٹر جے پال چھابڑیا نے ایک بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور اور قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات کا عکاس ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمارا موقف یہ ہے کہ تبدیلی مذہب کے لئے اٹھارہ برس کی عمرکی شرط ہونی چاہیے اور اس بات کا مطالبہ خود آل انڈیا مسلم لیگ نے 1937 میں کیا جب مسلم لڑکیاں ہندووں سے شادیاں کررہی تھیں اور مذہب بھی تبدیل کررہی تھی۔'

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔