وزارت مذہبی امور کو اقلیتوں کے خلاف جبری تبدیلی مذہب جیسے بدترین جرائم سے تحفظ کے لیے حق کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ تاریخ میں اسے اچھے لفظوں میں یاد کیا جائے۔
اسلام آباد: پیپلز کمیشن فار مناریٹی رائٹس (پی سی ایم آر) اور ادارہ برائے سماجی انصاف (سی ایس جے) کے نمائندگان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ ذمہ داروں نے جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے مجوزہ بل کی مخالفت میں مذہبی آزادی کے مفہوم اور معنویت کو کم کر دیا ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز کمیشن کے چیئرپرسن پیٹر جیکب اور ادارہ کے چیئرپرسن وجاہت مسعود نے کہا کہ وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے اپنایا گیا موقف بظاہر غلط فہمی یا مغالطوں پر مبنی ہے، ورنہ متعلقین اس بات کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں کہ وزارت انسانی حقوق کی جانب سے تیار کردہ مسودہ بل عام شہریوں کی مذہبی آزادی کو مجروح کرنے کی بجائے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچوں کے جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کی کوشش ہے۔
مقررین نے کہا کہ قومی ذرائع ابلاغ پاکستان بھر سے خاص طور کم سن اقلتیی بچییوں اور خواتین کی جبری تبدیلی مذہب کے واقعات کی مسلسل رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گو یہ رجحان پنجاب اور سندھ میں زیادہ غالب رہا ہے (صوبوں میں مسیحیوں اور ہندوں کی تعداد باقی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے) لیکن یہ رحجان ملک کے دیگر علاقو ں میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ باوجود یہ کہ بادی النظر میں سندھ میں قانوناً 18 سال سے کم شادی کرنے پر پابندی ہے اور پنجاب میں شادی کی کم از کم عمر 16 سال ہے، پھر بھی کم عمر لڑکیاں زیادہ تر ایسے جرائم کا نشانہ بنتی ہیں۔
2020ء میں ادارہ برائے سماجی انصاف نے ایک تحقیقاتی رپورٹ "سہمی ہوئی مخلوق" میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہندو اور مسیحی برادری کی جبری تبدیلی اور نابالغ لڑکیوں کے جبری نکاح کا رجحان صرف سندھ اور پنجاب تک محدود نہیں تھا بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جبری تبدیلیوں کے سب سے زیادہ واقعات 51.85 فیصد پنجاب میں، 43.83 فیصد سندھ میں، وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں اور 1.23 فیصد خیبر پختونخوا میں رپورٹ ہوئے جبکہ ایک کیس بلوچستان میں رپورٹ ہوا۔
وجاہت مسعود نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "اغوا یا جبری نکاح کی صورت میں ایک بچہ صدمے، خوف، والدین سے علیحدگی اور جسمانی ذہنی اور جذباتی اذیت سے گزرتا ہے۔ یہ بہت سے واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے خاندانوں کو انصاف کے لیے ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں اور بچے کے علاوہ سارا خاندان خوف کا شکار اور خاموش رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس لیے جبری تبدیلی مذہب کے معاملات میں بنیادی انسانی حقوق، بشمول مذہبی آزادی سمیت متعدد خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔"
پیٹر جیکب نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو 1927ء میں کیے گئے آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبات سے رہنمائی لینی چاہیے۔ انہوں نے تاریخ دان غلام علی الانا کی کتاب ''پاکستان موومنٹ: ہسٹاک ڈاکومنٹس'' کا حوالہ دیا جس میں مسلم لیگ نے کہا تھا کہ " ہر فرد یا گروہ کو حق ہے کہ وہ دلیل یا دعوت کے ذریعے کسی دوسرے کو اپنے مذہب کی طرف تبدیل یا دوبارہ تبدیل کرنے پر راغب کرے لیکن کسی فرد یا گروہ کو طاقت، دھوکہ دہی یا دیگر غیر منصفانہ ترغیبات سے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ نیز اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کا مذہب اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے جب تک کہ وہ اپنے والدین یا سرپرستوں کے ساتھ نہ ہوں۔"
پیٹر جیکب نے مزید کہا کہ "جبری تبدیلی کی روک تھام کے اقدامات سے انکار یا ان کی مزاحمت مذہبی آزادی کی نفی کے مترادف ہے جبکہ زبردستی تبدیلی مذہب بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی خلاف ورزی ہے۔ اقلیتیں برسوں سے جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کے ہاتھوں نقصان اٹھا رہی ہیں جو مذہب کو جرائم پر پردہ پوشی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اپنا فرض نبھاتے ہوئے اس لاقانونیت کو روکے۔"
پریس کانفرنس کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ وزارت مذہبی امور کو اقلیتوں کے خلاف جبری تبدیلی مذہب جیسے بدترین جرائم سے تحفظ کے لیے حق کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ تاریخ میں اسے اچھے لفظوں میں یاد کیا جائے۔
پریس کا نفرنس سے محترمہ نسرین اظہر، محترمہ نبیلہ فیروز بھٹی اور بشپ سیموئیل عزرایاہ نے بھی خطاب کیا۔