یاد رکھیے دنیا بھر میں جمہوری ریاست میں سیاست کا چال چلن تو گویا یوں ہی ہوتا ہے کہ کبھی اپنے حریف کے مخالف اس حد تک نہیں جایا جاتا کہ آنے والے وقت میں ایک دوسرے کے رخ پر نظر پڑتے ہی ہاتھ اٹھ جائے مگر پاکستان عالم جمہوریت میں وہ واحد وطن ہے جہاں حدوں کے آخری درجے سے اختلاف اور تضاد شروع ہوتا ہے اور بعد ازاں اسے گڑ اور شکر سے میٹھے رشتوں کی مٹھاس کے ساتھ عوام میں چائے کی مانند گھول کے پلا دیا جاتا ہے۔
حالیہ واقعات میں پاکستان کی ایک مذہبی اور الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعت جس نے 2018ء کی عام انتخابات میں 22 لاکھ سے زیادہ ووٹ لئے اور سندھ میں 3 رکن اسمبلی منتخب کروائے، وہیں پنجاب کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔
اس وقت تحریک لبیک پاکستان کے بانی علامہ خادم حسین رضوی مرحوم حیات تھے۔ میری ان سے کئی ملاقاتیں رہیں اور جس طرح کے حالات تب ملک میں بنے اور جس طرح کے حالات کا سامنا گذشتہ دنوں وطن عزیز کو تھا ان پر ہمیشہ میری ان سے گفتگو ایک صحافی سے کئی درجہ آگے نکل کر ہوتی رہی۔
وہ اس وقت بھی اپنے سخت موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے کہ ہماری جماعت کا منشور صرف ایک لائن پر مشتمل ہے اور ہم اس منشور پر سیاست کھل کر کریں گے۔
علامہ خادم حسین رضوی کا موقف یہ تھا کہ سیاست کا لفظ موجودہ سیاستدانوں نے بدنام کر رکھا ہے وگرنہ دین سیاست کی اجازات دیتا ہے اور دین کی سیاست کرنی چاہیے۔ علامہ خادم حسین رضوی اپنے یک سطری منشور کو یوں بیان کرتے تھے کہ "یہ ملک (پاکستان) موجودہ حکمرانوں کی بدمعاشی کے لئے نہیں بنا نہ ہی لاکھوں قربانیاں ان کی بدمعاشی کے لئے ہوئی تھیں، یہ ملک کا نظام اسلام کے تابع ہوگا کیونکہ اس ملک کی بنیاد اسلام کے نام پر ہے"۔
موجودہ حکومت نے سعد رضوی کی تحریک لبیک کا امیر بنتے ہی اس جماعت کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا تھا اور خاص کرکے چند وزراء جن میں فواد چوہدری اور فیصل ووڈا شامل تھے، یہ لوگ شروع سے مذہبی سیاست اور ان کے اس حوالے سے نام نہاد انتشاری کارروائیوں کے خلاف کھل کر نامناسب اور مناسب گفتگو کرتے رہے ہیں۔
فواد چوہدری نے تو حال میں بھی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو تحریک طالبان پاکستان سے ملا کر ان کے خلاف آپریشن اور جڑ سے خاتمے کا عندیہ دیا اور وہ شیخ رشید جو کہ بطور اپوزیشن رہنما اس جماعت کے لئے ویڈیو پیغامات جاری کرواتے تھے انہوں نے بھی ان کئ خلاف محاز کھولنے کی بات کی مگر پھر ہم نے دیکھا کہ خادم حسین رضوی کے ہوتے دھرنے کو فیض آباد سے جنہوں نے معاہدہ کرکے اٹھایا انہوں نے ہی 24 گھنٹوں میں ملک کی مایہ ناز قابل احترام شخصیات کو ملاقات کے لئے بلایا اور لفافے میں سیل سے بند کئے معاہدے کو تھما کر میڈیا سے دور رکھتے معاملات کو حل کروا دیا۔
ممکنہ طور پر ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں اس معاہدے میں کالعدم کا ٹیگ ہٹنا، سعد رضوی کی رہائی کارکنان کے خلاف مقدمات کا ختم ہونا، اکائونٹس کا بحال ہونا شامل ہے، وہیں فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے واضح نہ صحیح مگر اس طریقے سے شک کو شامل کروایا گیا ہے کہ حکومت ہم سے کئے پچھلے دو معاہدوں پر عملدرآمد کروائے گی جس میں واضح ہے کہ سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے پارلیمنٹ میں قرارداد لا کر ایک قومی بحث اور ووٹ کا انعقاد ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ اتنی ہارڈ لائن صرف 12 گھنٹوں میں کیسے اور کیونکر تبدیل ہوئی حالانکہ یہ بات ملک کے مفاد میں ہے کہ وطن عزیز میں انتشار کی صورتحال پر قابو پایا جا چکا ہے رکاوٹیں ہٹائی جا رہیں معاملات خوش اسلوبی سے طے پا رہے مگر سوال بر قرار ہے کہ کیوں اور کیسے؟
مگر ماضی کی جانب دیکھیں تو جوابات ملتے ہیں کہ پاکستان میں یہ روایات رہی ہیں کہ ہم جن کو انتہا پر جا کر تنقید کا نشانہ بناتے بعد ازاں وہی ہمارے لئے سب سے معتبر کہلاتے ہیں۔ یاد کیجئے اسی تحریک لبیک پاکستان کے بانی و سربراہ علامہ خادم حسین رضوی اسی مہینے میں جب پچھلے سال انتقال کر گئے تو یہی حکومت سمیت اپوزیشن کی وہ جماعت جس کی پچھلی حکومت (نواز لیگ) میں بھی ٹی ایل پی نے دھرنے دئیے اور معاملات ملک خراب ہوئے وہ سب ان کی وفات پر ناصرف رنجیدہ ہوئے بلکہ ان کے لئے تعزیتی پیغامات کے ساتھ القابات سے بھی نوازا گیا۔
ملک کے سپہ سالار سے لے کر ملک کے سربراہ یعنی صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان نے ان کی وفات پر فورا ٹویٹس کئے۔
مخالف عقائد کے مذہبی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور علماء نے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب دیا جن میں سراج الحق اور مولانا طارق جمیل تو خادم حسین رضوی کی قبر پر حاضری دینے بھی پہنچے وہیں اہل تشیع کے انتہائی اہم سکالر آغا جواد نقوی نے ان پر باقاعدہ سیمینار کر ڈالا۔ وہیں اپوزیشن کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر سعد رفیق بھی خادم حسین رضوی کی قبر پر پہنچے اور ان کے بیٹے سے ملاقات کے بعد تعزیت کی۔
ان تمام معاملات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ سمجھنا آسان ہے کہ پاکستان عالم جمہوریت کے وہ واحد ریاست ہے جہاں کسی سیاسی شخص کی بات کا اعتبار کسی طور نہیں کیا جا سکتا جن کو اسلام کا نام استعمال کرنے والا، انتشار پھیلانے والا اور نجانے کن کن القابات سے پکارا جاتا ہے بعد ازاں ان کی قبور پر حاضری دی جاتی ہے اور ان کی تعریف اور خدمات کو سراہا جاتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ حکمراں جماعت کے پنجاب سے رہنما اور سینیٹر اعجاز چوہدری نے یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ وہ سعد رضوی جس کو ان کی جماعت نے بطور حکمرانی کرتے کالعدم کیا اور اس شخص پر دہشت گردی کے پرچے درج کئے اس کے لئے ان پھولوں کا گلدستہ لے جا کر ملاقات کی جائے گی اور آئندہ بلدیاتی انتخابات میں پنجاب میں ان سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بھیک بھی مانگی جائے گی۔ بقول برقی اعظمی کہ،،،،،
بو رہا ہے بغض و نفرت کے وہ بیج
جس کی اپنی ذہنیت بیمار ہے
ہے عزیز اپنا اسے شخصی مفاد
مصلحت بیں آج کا فن کار ہے
خون انساں کی تجارت کے لئے
جس کو اپنا فائدہ درکار ہے
عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@