چائلڈ ليبر: حقائق اور روک تھام

چائلڈ ليبر: حقائق اور روک تھام
گھروں سے لے کر ہوٹلوں، ورکشاپوں، اڈوں، الغرض ہر جگہ چھوٹے چھوٹے بچے کام کرتے نظر آتے ہيں۔ ننھی کلياں کھلنے سے پہلے ہی حالات کے ہاتھوں مسل جاتی ہيں۔ کھيلنے اور پڑھنے کی عمروں والے بچے ہميں سخت دماغی اور جسمانی مشقت والے کام کرتے دکھائی ديتے ہيں۔

قارئين، سخت سے سخت دل والے والدين بھی ہنسی خوشی اپنے جگر گوشوں کو کام کرنے نہيں بھيج سکتے۔ ہر چائلڈ ليبر کے پيچھے ايک تلخ کہانی اور مجبوری ہوتی ہے۔ معاشرے کے ان تلخ حقائق کو سمجھے اور ان کا حل نکالے بغير چائلڈ ليبر سے چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن ہے۔

سماج میں معاشی ناہمواری

چائلڈ ليبر کی سب سے بڑی وجہ معاشرتی ناہموارياں اور غربت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک ميں امير، امير سے امير تر اور غريب، غريب سے غريب تر ہوتا جا رہا ہے۔ وسائل صرف خواص کے پاس ہيں اور عام آدمی کے حصے ميں صرف مسائل ہی مسائل ہيں۔ غريب اور امير کے لئے قانون بھی ایک جیسا اور یکساں نہیں۔ سچ کہوں تو کبھی کبھی ايسا لگتا ہے کہ قانون اور اس پر عمل درآمد صرف غريب کے لئے ہے۔ غریب ایک مہینے بجلی کا بل نہ دے تو کنکشن کاٹ ديا جاتا ہے جبکہ امير لاکھوں کا نادہندہ ہو کر بھی تمام سہولتوں سے مستفيد ہوتا رہتا ہے۔ کھانے پينے اور استعمال کی اشيا‏ پر سیلز ٹيکس نافذ ہے۔ گھر سے قدم باہر نکالتے ہی کسی نہ کسی شکل ميں ٹیکس وصولی شروع ہو جاتی ہے ليکن پتہ نہيں یہ اربوں کھربوں روپے کہاں جاتے ہيں۔

عوام کا ٹیکس عوام پر لگایا جائے

ترقی یافتہ ممالک ميں عوام سے وصول کيا ہوا ٹيکس عوام پر ہی لگايا جاتا ہے مگر ہمارے یہاں الٹے گنگا بہتی ہے اور عوام کے خون کو نچوڑ کر حاصل کيا ہوا ٹيکس خواص کی جيبوں ميں چلا جاتا ہے۔ معاشی ناہمواری کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ امیروں کے ٹیکس ميں اضافہ کر کے غريبوں پر خرچ کيا جائے۔ ان کو تعليم، صحت اور تمام بنيادی سہولتيں یکساں طور پر فراہم کی جائيں۔ ٹيکس کے نظام ميں شفافیيت بھی ضروری ہے۔ ويلفیئر ریاستوں کی طرز پر غريب اور بےروزگار کو چائلڈ الاؤنس دے کر بچے کو سکول میں داخل کرنا چاہيے۔ ان بچوں کو مفت کتابيں اور یونیفارم فراہم کرنا چاہيے۔

ہر کيس کو الگ الگ ديکھنا اور اس کا حل تلاش کرنا بھی ضروری ہے

ين جی اووز عوامی آگاہی کے سلسلے ميں بڑا اچھا کام کر رہی ہيں۔ مقامی کميونٹی اور اين جی اوز سے مدد لے کر ڈيٹا حاصل کيا جاسکتا ہے، لوگوں کی کاؤنسلنگ اور بعد ازاں مانيٹرنگ بھی کی جا سکتی ہے۔ مخير حضرات، این جی اوز اور جو بھی اس سلسلے میں مدد کرنا چاہے اس سے بھرپور استفادہ حاصل کرنا چاہيے۔

معزز قارئين، مندرجہ بالا کے علاوہ اور بھی کئی تجاويز ہيں جو ميں وقتاً فوقتاً آپ کی اور ارباب اختيار کی خدمت ميں اس اميد کے ساتھ پيش کرتا رہوں گا کہ شائد ميری کسی ايک کاوش سے کوئی ننھی کلی مرجھانے سے اور حالات کے بے رحم چنگل ميں جانے سے بچ جائے۔

مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں