جے کے ایل ایف کے کنٹرول لائن کیطرف مارچ سے عمران خان کیوں پریشان ہیں؟

جے کے ایل ایف کے کنٹرول لائن کیطرف مارچ سے عمران خان کیوں پریشان ہیں؟
جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ ( پاکستانی کشمیر و گلگت بلتستان) کا آزادی مارچ کنٹرول لائن (انکے بقول سیز فائر لائن) توڑنے کے اعلان کیساتھ مظفرآباد سے چکوٹھی کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔

https://twitter.com/HamidMirPAK/status/1180013359791513601?s=20

جے کے ایل ایف کے مطابق ان کا پڑاؤ سری نگر ہو گا۔ اس مارچ میں پاکستانی کشمیر کے تمام اضلاع سے کارکنان شریک ہیں۔

https://twitter.com/MKashamiri/status/1180389186911817732?s=20

واضح رہے کہ اس مارچ کو پاکستانی کشمیر کی ریاستی حکومت کی حمایت حاصل نہیں ہے جبکہ دوسری جانب جے کے ایل ایف پر بھارتی کشمیر میں پہلے ہی پابندی لگائی جا چکی ہے۔ جے کے ایل ایف کے چئیرمین یاسین ملک اس وقت دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں جبکہ تنظیم کے پاکستانی کشمیر و گلگت بلتستان کے حصے میں اسے ڈاکٹر توقیر گیلانی بطور زونل صدر لیڈ کر رہے ہیں. اس وقت مارچ کی قیادت بھی وہی کر رہے ہیں۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پاکستان اور بھارت دونوں کو کشمیر میں قابض ممالک قرار دیتی ہے اور کشمیر کے مسئلے کا حل دونوں ممالک کی افواج کی واپسی اور رائے شماری سمجھتی ہے۔ جے کے ایل ایف کا نظریہ الحاق پاکستان یا بھارت کی بجائے ایک خودمختار الگ ریاست کا ہے۔

اسی نظرئیے کو لیکر آج جے کے ایل ایف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی طرف مارچ کر رہی ہے جسے آزادی مارچ کا نام دیا گیا ہے۔


مارچ کی کوریج پاکستانی اور بھارتی میڈیا کے کچھ حصے کر رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا مارچ کے پیچھے پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام لگا رہا ہے جبکہ پاکستانی میڈیا ماضی کے برعکس جے کے ایل ایف کو کوریج دے رہا ہے۔ نارمل حالات میں پاکستانی میڈیا اس تنظیم کو کوریج نہیں دیتا۔

کشمیر سے موصول ہونے والی خبروں کیمطابق اس مارچ میں شرکاء کی تعداد سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے جنہیں کنٹرول لائن پر روکنا مشکل ہے، جہاں تک اس طرح کی سرگرمیوں کا تعلق ہے، یہ کوئی پہلی سرگرمی نہیں بلکہ مسلم کانفرنس کے چودھری غلام عباس نے 15 جون 1958 کو سب سے پہلے سیز فائر لائن توڑنے کا اعلان کیا تھا۔

جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ، جے کے ایل ایف، کشمیر، انڈیا، پاکستان،

چودھری غلام عباس کو پاکستان نے گرفتار کر لیا تھا تاہم اسکے باوجود 27 جون 1958 کو چودھری غلام عباس کی کال پر ایک بڑی ریلی نے ایل او سی کیطرف مارچ کیا تھا۔

پاکستانی حکومت کیخلاف مظاہرے بڑھے تو بالآخر 30 جون کو فیروزخان نون کی حکومت نے چودھری غلام عباس کو رہا کردیا جبکہ 1992 میں جے کے ایل ایف نے بھی سیز فائر لائن توڑنے کی کوشش کی۔ بھارت کے حالیہ اقدام کے بعد اب جے کے ایل ایف نے ایک بار پھر سیز فائر لائن توڑ دو کی کال دی ہے جس پر کارکنان نے لبیک کہا ہے۔

جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ، جے کے ایل ایف، کشمیر، انڈیا، پاکستان،

تازہ ترین صورتحال کے مطابق پاکستانی کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے تمام تر صورتحال سے پاکستان کے اربابِ اختیار کو آگاہ کردیا ہے جس کے بعد انتظامیہ خاصی متحرک نظر آتی ہے۔


ادھر بھارت نے اس مارچ کو لیکر ناردرن انفنٹری کو ہائی الرٹ کرتے ہوئے چکوٹھی سیکٹر میں اضافی نفری تعینات کر دی ہے۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال بننے جا رہی ہے، ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی کشمیر کے لوگ سرحد پار اپنے بھائیوں کیلئے فکر مند ہیں، انہیں سرحد پر روکنا یقیناً مشکل ہدف ہے‘۔. دوسری جانب بھارتی کشمیر کے عوام پر کرفیو آج 62ویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔ ایسے میں کشمیریوں میں عوامی غم و غصہ انتہائی سطح پر پہنچ چکا ہے۔


اس تمام تر صورتحال میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایک بار پھر خوموشی توڑتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا کہ” ‏میں مقبوضہ کشمیر میں 2 ماہ سے جاری غیرانسانی کرفیو میں پھنسے کشمیریوں کے حوالے سے آزاد کشمیر کے لوگوں میں پایا جانے والا کَرب سمجھ سکتا ہوں لیکن اہل کشمیر کی مدد یا جدوجہد میں انکی کی حمایت کی غرض سے جو بھی آزاد کشمیر سے ایل او سی پار کرے گا وہ بھارتی بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلے گا“۔

https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1180356675032817664?s=20

وزیر اعظم پاکستان نے مزید لکھا کہ ” ‏وہ بیانیہ جس کے ذریعے پاکستان پر "اسلامی دہشت گردی" کا الزام لگا کر ظالمانہ بھارتی قبضے کیخلاف اہل کشمیر کی جائز جدوجہد سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ایل او سی پار کرنے سے بھارت کو مقبوضہ وادی میں محصور لوگوں پر تشدد بڑھانے اور جنگ بندی لکیر کے اس پار حملہ کرنے کا جواز ملے گا“۔

بظاہر وزیر اعظم عمران خان کے اس پیغام سے لگتا ہے کہ وہ اس عوامی مارچ سے پریشان ہیں. اور وہ بھارت سمیت بین الاقوامی برادری کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اس طرح کی سرگرمیوں کے پیچھے ان کا یا انکی ریاست کا کوئی ہاتھ نہیں تاہم کشمیر کے قوم پرست اس بیان کو افسوسناک قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کشمیریوں کی داخلی تحریک کو کسی بھی قسم کی ڈکٹیشن دے۔ نئے حالات کے پیش نظر پاکستانی کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر پاکستان کو پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ حالات ان کے قابو میں نہیں رہیں گے، پاکستان کو مسئلے کے حل کیلئے کشمیریوں کو آگے کرنا ہو گا جو کہ معاملے کے اصل فریق ہیں۔

موجودہ حالات میں وزیر اعظم راجا فاروق حیدر کا کردار نظر نہ آنا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کیلئے بہتری اسی میں ہے کہ بھلے وہ مسئلہ کشمیر کا فریق ہے مگر فریق اول کے کردار کو بھی تسلیم کرے۔ وزیر اعظم عمران خان اس سے قبل مظفرآباد میں خطاب کے دوران ایک غلطی کر چکے اب خدارا غلطی پر مزید غلطیاں مت دہرائی جائیں۔ عمران خان نے مظفرآباد میں خطاب میں کہا کہ آزاد کشمیر کے لوگ اس وقت تک کنٹرول لائن کی طرف مت جائیں جب تک وہ خود انہیں نہ کہ دیں۔ تو کیا اب بھارت کے پاس یہ جملہ ایک زبردست موقع بن کر نہیں آیا کہ آزاد کشمیر کی داخلی تحریک کو بھی وہ’پاکستانی سپانسرڈ‘ قرار دے۔ اب ایک بار پھر وزیر اعظم نے متنازع گفتگو کی ہے۔

کیا پاکستان کے وزیر اعظم کو یہ کہنا زیب دیتا ہے کہ’ کشمیر کے لوگ بھارتی بیانیے کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں‘؟ وزیراعظم نے ٹوئٹر پر لکھا کہ اس وقت آزاد کشمیر سے ایل او سی کراس کرنے کا مطلب بھاتی بیانیے کے ہاتھوں کھیلنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو پاکستانی اور کشمیری لوگوں میں فرق کرنا ہو گا۔

کشمیریوں کیلئے مسئلہ کشمیر کی نوعیت پاکستانی تناظر سے بہت مختلف ہے۔ اگر پاکستانی شہریت رکھنے والا کوئی شہری ایل او سی کی طرف بڑھے تو یقیناً یہ عمران خان صاحب کا فرض ہے کہ وہ اسے روکیں لیکن کشمیریوں کیلئے صورتحال یکسر مختلف ہے۔ کشمیری عوام کی اپنی ریاستی حکومت موجود ہے۔ پاکستان کو کشمیری عوام کی تحریک کی سرپرستی اپنے ہاتھ لینے کی ضرورت نہیں۔ یقینا کشمیری عوام پاکستان کے مشکور ہیں کہ پاکستان نے مسئلے پر آواز بلند کی مگر پاکستان کا بحیثیت دوسرا یا تیسرا فریق جو کردار ہے اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ معاملے کے پہلے فریق کی حیثیت دوسرے اور تیسرے درجے کے فریق سے بالکل مختلف ہے. پاکستانی ارباب اختیار کو نجانے یہ کب سمجھ آئے گا۔

اکرام راجہ صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں