'مریم نواز شریف کی درخواست سیاسی، مقصد حالات کا رخ دیکھنا ہے'

'مریم نواز شریف کی درخواست سیاسی، مقصد حالات کا رخ دیکھنا ہے'
رضا رومی نے سوال اٹھایا ہے کہ پانامہ کیس میں کس قانون کی پاسداری کی گئی تھی؟ کیا پاکستانی قانون میں کسی انسپکشن جج کا ذکر ہے کہ سپریم کورٹ اسے مقرر کر دے۔ اس حوالے سے آئین کی کتاب دیکھ لیں یا سپریم کورٹ کے رولز پڑھ لیں۔ انسپکشن ججز ہائیکورٹس میں تعینات ہوتے ہیں جو ماتحت عدالتوں کو چیک کرتے ہیں، برادر ججز سارے برابر ہوتے ہیں، کوئی کسی پر انسپکٹر کے طور پر نہیں جا سکتا۔ پانامہ کیس میں تو ٹرائل کا موقع ہی نہیں دیا گیا، ایپلیٹ کورٹ ہی ٹرائل کورٹ بھی بن گئی تھی۔

یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام '' خبر سے آگے'' میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس اور درخواست دونوں سیاسی ہیں۔ اس کا مقصد ٹیسٹ کرنا ہے کہ حالات کا رخ کس طرف ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی کو اس لئے عہدے سے ہٹایا گیا کیونکہ انہوں نے کچھ باتیں بحیثیت جج عوام میں کر دی تھیں، ان کیخلاف کیس بھی اسی بنیاد پر بنا تھا۔

خیال رہے کہ مریم نواز شریف کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے، اس درخواست میں سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خطاب کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

مریم نواز شریف کی جانب سے یہ درخواست ایڈووکیٹ عرفان قادر نے اسلام ہائیکورٹ میں جمع کرائی۔ اس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے چھ جولائی 2017ء کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی گئی تھی جو پاکستانی تاریخ میں قانون کی سنگین خلاف ورزیوں اور سیاسی انجینئرنگ کی پرانی مثال ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی جو الزامات لگائے، آئی ایس آئی سربراہ نے ان کی تردید نہیں کی۔ سابق جج کے بیان سے یہ شکوک وشبہات پیدا ہوئے کہ عدالتی فیصلہ غیر جانبدارانہ تھا۔ اس کے بعد جج ارشد ملک کی بھی ویڈیو سامنے آئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان پر بہت دبائو تھا کہ نواز شریف کو سزا دیں۔ عدالت عالیہ ان سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے سزا کو کالعدم قرار دے۔

پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ مجھے اس درخواست کی کامیابی کے امکانات کم لگتے ہیں کیونکہ ماہرین قوانین کا کہنا ہے کہ اگر عدالت کے روبرو کوئی شہادت پیش کرنا مقصود تھا تو اسے ٹرائل کے دوران پیش کیا جانا ضروری تھا، اب اضافی شہادت پیش کر سکتے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لئے جو ٹرائل کورٹ کی شہادت وہی سپریم کورٹ تک پڑھی جائے گی، نئی کوئی شہادت ریکارڈ نہیں ہو سکتی، پاکستان کے قوانین کے تحت ایپلیٹ کورٹ میں شہادتیں ریکارڈ نہیں ہو سکتیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کیس کو دوبارہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ کر دیا جائے۔

انہوں نے قانوی نکات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ابھی تک جو ٹرائل ہوا ہے اس پر نواز شریف اور مریم نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ ٹرائل کورٹ میں دونوں کے پاس بیان اور شہادتیں دینے کا بھرپور اختیار تھا لیکن انہوں نے اس کا استعمال نہیں کیا۔ پاکستان کے قانون میں ہے کہ کسی ملزم پر دبائو نہیں ڈالا جا سکتا کہ وہ کوئی بیان دے کیونکہ یہ پراسیکیوشن کا کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر قانون کے اندر رہ کر اس درخواست کو دیکھا جائے تو ٹرائل کورٹ کے پاس کیس کو ریمانڈ کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں بریت نہیں ہو سکتی، ابتدا سے ہی ٹرائل شروع کرنے کی نظیر بھی بہت کم ہے۔

مزمل سہروردی نے کہا کہ تاہم جج ارشد ملک کی ویڈیو کی وجہ سے کیس کو دوبارہ فیصلے کیلئے بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ انہوں نے ٹھیک فیصلہ نہیں دیا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج مریم نواز کا ڈی جی آئی ایس آئی کے حوالے سے ٹویٹ کا بڑا ذکر ہے، یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا، اس سے قبل بھی سیاستدان کھل کر نام لے لیتے تھے، بے نظیر بھٹو اس کی مثال ہیں۔

چیئرمین نیب کی توسیع بارے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے تو یہ نہیں سمجھ آتی کہ وہ خود کو قربانی کا بکرا کیوں بنا رہے ہیں، ایک بھرپور اننگز انہوں نے کھیلی ہے، اب وہ محفوظ راستہ پکڑیں اور کہانی عمران خان کے لئے چھوڑ دیں۔

پینڈورا پیپرز پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احتساب کی کل حقیقت یہ ہے کہ اس میں زرداری کی آف شور نکلی نہ شریف خاندان کی، ان میں سے کسی کی کوئی کمپنی نکلتی پھر آپ دیکھتے احتساب ہوتا۔ اب کیا جنرل شفاعت کا احتساب ہوگا یا خسرو بختیار کا؟ یا پھر علیم خان کا احتساب ہوگا؟

عامر غوری کا کہنا تھا کہ مریم نواز کی درخواست کی ٹائمنگ بہت اہمیت کی حامل ہے، لگتا ہے کہ وہ ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہ رہی ہیں، اس حوالے سے ان کی ٹویٹ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنی بریت کی درخواست میں انہوں نے اہم نکات کو اٹھایا ہے۔ اس میں جج ارشد ملک کی ویڈیو، عدالت کا کردار اور فوجی افسران کی عدالتوں میں آمد سمیت دیگر نکات درج ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اسے کیسے لیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اسلام آباد ہائیکورٹ اس کیس کو الٹا کرکے رکھ دیتی ہے اور یہ کیس سپریم کورٹ میں جاتا ہے تو یہ فیصلہ عدلیہ کو بھی ہلا کر رکھ دے گا، پھر پتا چلے گا کہ پاکستان کی سیاست میں کیا کیا ہوتا رہا ہے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ میں قانونی نکات پر تبصرہ کرنے سے گریز اور قیاس آرائی نہیں کروں گا، دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اسے مانے گی یا نہیں، کوئی معجزہ ہوا تو بس اس کیس کا ری ٹرائل کا آرڈر ہو جائے گا۔