Get Alerts

پانامہ کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط اپروچ تھی؛ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی

سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فرضی آمدنی کے جرم پر ڈس کوالیفائی کرنے یا سزا دینے کے فیصلے سے بھی میں اختلاف کرتا ہوں۔ میں نے فرضی آمدنی کے معاملے کو جتنا پڑھا ہے اس کے مطابق کہتا ہوں کہ یہ عدالت کی غلط اپروچ تھی۔ میں بینچ کا حصہ ہوتا تو میں اس سے ضرور اختلاف کرتا۔

پانامہ کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط اپروچ تھی؛ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی

نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنے اور انہیں سیاست سے تاحیات نااہل کرنے سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ غلط اپروچ پر مبنی تھا، میں بینچ کا حصہ ہوتا تو اس سے اختلاف کرتا۔ عدالت نے پانامہ کیس میں نواز شریف کو اس الزام پر سزا سنائی جو پٹیشن کا حصہ ہی نہیں تھا، میری ذاتی رائے میں پانامہ کیس کا جو فیصلہ سنایا گیا وہ ممکن ہی نہیں تھا۔ یہ کہنا ہے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ انور ظہیر جمالی کا۔

معروف اینکر کامران خان کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے 2017 میں سپریم کورٹ کے پانامہ کیس سے متعلق فیصلے پر کھل کر بات چیت کی۔ اس گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر میری ذاتی رائے سنیں تو پاناما کیس کا یہ فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں اس فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کیونکہ یہ سپریم کورٹ کے ایک معزز جج صاحب کا فیصلہ تھا جس پر دوسرے جج صاحبان نے بھی دستخط کیے تھے۔ لیکن ایک بات ہے کہ عدالت کے باہر کے معاملات کو فیصلوں میں شامل نہیں کرنا چاہیے، ٹو دی پوائنٹ ان معاملات پر بات کرنی چاہیے جو ریکارڈ سے ثابت ہو سکیں۔ گاڈفادر جیسی کہانیاں لکھنا بہت آسان ہے، سوال یہ ہے کہ ان ساری چیزوں کا اس مقدمے سے کیا تعلق تھا؟ میں سوال پوچھتا ہوں کہ اقامہ کا ذکر کہاں سے آ گیا؟ جس پٹیشن پر یہ ساری کارروائی شروع ہوئی تھی میں نے پوری پٹیشن پڑھی ہے، اس میں اقامہ کا کہیں ذکر ہی نہیں تھا۔ اس میں جو الزامات تھے وہ لندن میں فلیٹس کے حوالے سے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اقامہ کی بات سماعت کے دوران اٹھائی گئی تو کیا جس پر الزام لگایا گیا تھا اس کو جواب دینے کا موقع دیا گیا؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی۔ فوجداری مقدمات میں جو الزامات شامل ہوتے ہیں عدالت صرف انہی الزامات کی بنیاد پر سزا سنا سکتی ہے جبکہ اس پٹیشن میں اقامے کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا مگر عدالت نے اقامے کی بنیاد پر ہی سزا سنائی۔

سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فرضی آمدنی کے جرم پر ڈس کوالیفائی کرنے یا سزا دینے کے فیصلے سے بھی میں اختلاف کرتا ہوں۔ میں نے فرضی آمدنی کے معاملے کو جتنا پڑھا ہے اس کے مطابق کہتا ہوں کہ یہ عدالت کی غلط اپروچ تھی۔ میں بینچ کا حصہ ہوتا تو میں اس سے ضرور اختلاف کرتا۔

تاحیات نااہلی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جج صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ یہ سزا کہاں سے لے کر آئے کہ سیاست سے تاحیات نااہل کر دیا؟ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی مجرم کو چھوٹی سی چوری پر موت کی سزا سنا دی جائے۔ پانامہ والے معاملے کو سات آٹھ سال گزر چکے ہیں، اب اس سٹیج پر کیا کہا جا سکتا ہے؟ بس اتنا کہوں گا کہ آپ اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں، ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔