سہیل وڑائچ کے شیر، چیتے، ہاتھی، اور عاصم باجوہ پر الزامات کا قصہ

سہیل وڑائچ کے شیر، چیتے، ہاتھی، اور عاصم باجوہ پر الزامات کا قصہ
فیکٹ فوکس لیکس نے جب سے جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق خبر دی ہے، پاکستانی سیاست اور صحافت میں طلاطم ہے۔ روایتی میڈیا نے پہلے پہل خبر دبانے کی دبا کر کوشش کی۔ سوشل میڈیا پر شور مچا تو تردید آ گئی، اب تردید تو چلانا تھی۔ تردید چلائی گئی تو خبر کا حوالہ بھی نتھی کرنا پڑا۔ سو پھر کچھ نہ بچا۔ یہاں تک تو سمجھ آتی ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاست کے بڑے کھلاڑی بھی اچانک متحرک ہو گئے۔ دلچسپت امر یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں یہ حرکت اسی وقت شروع ہوئی جب روایتی میڈیا میں اس خبر کا تذکرہ اور چرچا ہونا شروع ہوا۔ پاکستان کے عوام اس سیاسی حرکت پذیری پر بھی حیران ہیں۔ خبریں آ رہی ہیں کہ نواز شریف سیاست میں ایکٹو ہیں۔ اس کے مقابلے میں یہ بھی خبریں روز میڈیا کی زینت بنتی ہیں کہ جناب وزیر اعظم نواز شریف کے ہاتھوں سے نکلنے سے بہت اداس ہیں۔ پھر اشارے یہ بھی ہوتے ہیں کہ اب وہ ان کو واپس لانے کے لئے کوشاں ہیں۔

پھر انصار عباسی سب کو بتاتے ہیں کہ نواز شریف اور مریم کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے ہیں اور بلاول اور آصف علی زرداری بھی وہیں سے ڈائریکشن حاصل کرتے ہیں۔ یعنی مختصر یہ کہ حکومت ہو یا اپوزیشن سب اسٹیبلشمنٹ کے در پر ہی بیٹھے ہیں۔

تاہم، عوام اب تک حیران اور پریشان ہیں کہ عاصم باجوہ پر اب وہ میڈیا کھل کر کیسے تنقید کرنے کی جرأت کر پا رہا ہے جو کل تک خاموش تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس بارے میں بھی عوام کے ذہنوں میں سوال پائے جاتے ہیں کہ نواز شریف اچانک ایکٹو کیسے ہو گئے؟ اور مریم بی بی اور ان کے چچا کی سیاسی پرفارمنس میں اچانک بدلاؤ کیسے؟

پہلے سوال کے جواب میں تو عام یہ کہا جا رہا ہے کہ ڈوریاں وہیں سے ہل رہی ہیں جہاں سے رکوائی گئی تھیں۔ لیکن اس سوال کے جواب میں کہ نواز شریف کو کیا ہوا، سہیل وڑائچ کا تازہ ترین کالم جس میں انہوں نے پاکستانی سیاست کی وضاحت کرتے ہوئے جنگل، جنگلی جانوروں اور ان کے درمیان تعلقات کا بطور تشبیہیات سہارا لیا ہے، بہت اہم ہے۔

انہوں نے ملکی اسٹیبلشمنٹ کو جنگل میں ہاتھیوں کا جھنڈ قرار دیا ہے جب کہ ملک کے موجودہ حکمران عمران خان کو چیتے کے استعارے سے بیان کیا ہے۔ نواز شریف کے لئے شیر کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف ہی مریم اور شہباز کی حالیہ سیاسی چہل پہل کے ذمہ دار ہیں۔ اور ساتھ یہ بھی کہ پاک فوج کے آٹھ جنرلز اس سال اکتوبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں اور نواز شریف اس تبدیلی سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ جنگل کے جنگلی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ دسمبر تک چیتے اور شیر کی جنگ ٹھنڈی ٹھنڈی رہے گی لیکن جب سے شیر کو واپس بلانے کے حوالے سے پیشرفت شروع ہوئی ہے شیر نے بھی اپنی ڈوریں ہلانی شروع کر دی ہیں۔ پہلے شیر نے اپنی بیٹی کو باہر نکالا۔ اب شیر نے اپنے قائم مقام بھائی کو بھی بندرگاہ کی طرف روانہ کیا۔ وہ وہاں گوریلے باپ بیٹے سے بھی ملا مگر معاملہ نشستند، گفتند، برخاستند تک ہی محدود رہا۔

اصل میں شیر کا قائم مقام ہو یا بوڑھا گوریلا، دونوں اقتدار کی راہداریوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ وہ ہر وقت ہاتھیوں کی سوچ کو سونگھتے رہتے ہیں۔ ان دونوں کی خواہش ہے کہ ہاتھی اور چیتے ایک صفحے پر نہ رہیں۔ جب یہ ہو گا، تبھی حکومت کی تبدیلی کی راہ ہموار ہوگی۔ دراصل سابق بادشاہ شیر کو علم ہے کہ ستمبر اور اکتوبر میں ہاتھیوں کے دستے میں آٹھ اہم تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے بعد ہی نئی منصوبہ بندی ہو گی اور طے ہو گا کہ آگے جا کر جنگل میں کیا ہوگا۔

ساتھ ہی انہوں نے جاتے جاتے وزیر اعظم عمران خان کو کہا ہے کہ اقتدار میں کوئی ہمیشہ نہیں رہتا۔ اس لئے وہ دیر نہ کریں اور عوام کی خدمت کریں کہ جو ایسا کرتا ہے وہ رخصت ہو بھی جائے عوام کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔

سہیل وڑائچ کے تجزیے کی شاندار صلاحیت کا کون منکر ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ وڑائچ صاحب محض تجزیے کی بنیاد پر بات نہیں کرتے۔ قومی صحافت میں اس وقت ان کے پائے کا شاید ہی کوئی اور صحافی ہو اور اگر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کچھ تبدیلیوں سے امید باندھے بیٹھے ہیں تو ممکن ہے یہاں معاملہ محض بھوشیہ وانی کا نہ ہو، آکاش وانی بھی بیچ میں شامل ہو سکتی ہے۔

دوسری طرف وہ صحافی اور تجزیہ کار ہیں جن کا خیال ہے کہ یہ سب کھیل تماشہ عوام کو دکھانے کے لئے ہے۔ دونوں اپوزیشن جماعتیں گاہے گاہے اپنے ووٹر اور نمائندگان کو یہ پیغام دیتی رہتی ہیں کہ سیاسی محاذ پر کچھ ہلچل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی جانتی ہیں کہ مقتدر حلقوں کا دل ابھی بھرا نہیں اور یہ دل 2023 میں جا کر ہی بھرے گا، لہٰذا ہر تھوڑے دنوں کے بعد سرکس لگایا جاتا ہے، تماشائیوں کو خوش کیا جاتا ہے اور پھر سب پرانی تنخواہ پر کام کرنے لگتے ہیں۔

ہاتھی، چیتے اور شیر کے درمیان اس کشمکش کے دوران اور کچھ ہو نہ ہو، گھاس یعنی عوام ضرور کچلے جا رہے ہیں۔